نعت نگاری میں ریاض کی رمزِ پیشوائیت
شیخ عبدالعزیز دباغ
زندگی بھر، تادمِ آخر جدید اُردو نعت کی خدمت عالیہ پر مامور قابلِ صد احترام مدحت نگارِ رسولؐ، ریاضؔ حسین چودھری، دیارِ اقبال میں معروف صنعت کار اور ممتاز تاجر الحاج چوہدری عبدالحمید مرحوم (آف چوہدری فضل دین اینڈ سنز) کے ہاں 8؍نومبر 1941ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سکاچ مشن ہائی سکول میں حاصل کرنے کے بعد1963ء میں مرے کالج سے گریجویشن کیا۔ اس دوران مرے کالج میگزین کے دو سال تک مدیر اور بزمِ اُردو کے صدر رہے۔ پھر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کیا اوراورینٹل کالج سے ایم اے اردو کیا۔ دو سال تک کالج کے مجلّے المیزان کے اُردو سیکشن کے مدیر رہے۔ مرے کالج میں انہیں استاذ مکرم جناب آسی ضیائی رامپوری کی صحبت میسر آئی اور انہی کے تلمذ میں سخنوری کی راہ اپنائی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریاضؔ حسین چودھری نے چوہدری فضل دین اینڈ سنز میں امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار سنبھالا اور اپنے والدِ گرامی کے دست و بازو بنے۔ آپ نے اس کاروبار میں پورے انہماک سے کام کیا، اسے پھیلایا اوراپنے بھائیوں پر مشتمل ایک فعال ٹیم کی سربراہی کی۔
آٹھ بھائیوں میں یہ سب سے بڑے تھے۔ والدین کی محبت کچھ ایسی ملی کہ نرم خوئی، حلیمی، بردباری، پیار اور شفقت ان کی شخصیت کی پہچان بن گئے۔ چھوٹے بھائیوں کی تعلیم پر ذمہ داری سے توجہ دیتے۔ چونکہ ناراضگی غصہ وغیرہ سے آشنائی نہ تھی چھوٹے بھائی آپ کی طرف زیادہ لپکتے اور اپنے مسائل ان تک پہنچاتے۔ ان کے چھوٹے بھائی اطہر صاحب نے بتایا کہ ریاض ہی تھے جنہوں نے انہیں اردو انگلش کے حروف تہجی لکھنا سکھائے اور تعلیمی سفر طے کرنے میں ان کی مدد کی۔ شفقت اور محبت کی وجہ سے وہ ہمیشہ ان کے قریب رہے۔
ریاضؔ حسین چودھری 1965 کے بعد 1990 تک محنت اور لگن کے 35 برس کاروبار کی نذر کرنے کے بعد مصطفویؐ مشن کے جذبے سے سرشار تحریکِ منہاج القرآن مرکزی سیکریٹریٹ لاہور آ گئے اور پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ لاہور کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی اور دس سال اس کے مدیر اعلیٰ رہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں تحریکِ منہاج القرآن کے شعبۂ ادبیات کے صدارت سنبھالی۔ سیالکوٹ آتے جاتے دو بار روڈ ایکسڈنٹ میں زخمی ہونے کی وجہ سے سفر کے قابل نہ رہے اور 2002میں ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے۔
ریاضؔ حسین چودھری اپنی کاروباری زندگی کے دوران اپنی ادبی خدمات میں ہمہ تن مصروف رہے۔ انہوں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں ہر ماہ بڑے پیمانے پر محفلِ میلاد کا انعقاد ہوتا جس میں وقت کے بڑے اور نامور مدحت نگاروں کو مدعو کیا جاتا اور ان سے نعتیہ کلام سن کر اپنا ایمان تازہ کیا جاتا۔ جناب حفیظ تائب اور احمد ندیم قاسمی اکثر ان محافل اور حلقۂ ارباب ذوق کے پروگراموں میں شرکت کے لئے سیالکوٹ آتے اورتخلیق کاروں کے لئے حوصلہ افزائی کا سامان کرتے۔ ریاضؔ حسین چودھری دو مرتبہ حلقۂ اربابِ ذوق سیالکوٹ کے سیکریٹری منتخب ہوئے اور پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن سیالکوٹ کے سیکریٹری بھی رہے۔
وہ ایک فعال ادیب تھے۔ خوب غزل لکھتے اور داد تحسین وصول کرتے۔ مگر مدحت رسول خمیر میں تھی تو خود کو نعت نگاری کے لئے وقف کر دیا۔
میں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاض
جب بھی سوچوں گا نبیؐ کی نعت ہی سوچوں گا میں
آپ کے نعتیہ کلام کے بارے میں اگلے صفحات میں تفصیل سے بات ہوئی ہے۔ یہاں یہ دیکھنا ہے کہ ریاض حسین چودھری فن مدحت نگاری میں پیشوائیت کے مقام پر کیسے اور کیونکر فائز ہوئے۔ اور مدحت نگار ی میں انہوں نے مسقبل کے شعرا کے لئے کیا حقیقی ورثہ چھوڑا ہے۔ ان کے کام سے جو راز ہویدا ہوتا ہے وہ ان کی اپنی نظر میں کچھ یوں ہے:
روزِ الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا
میں بڑے خلوص سے چوما اسے ریاض
اور پھر قلم حضور کے قدموں میں رکھ دیا
مدحت نگاری کے بحرِ مواّج
ریاض حسین چودھری کو قدرت نے جہانِ نعت نگاری کاسلطان بنا کر دنیا میں بھیجا جنہوں نے تسکینِ جاں کے لئے تخلیقِ نعت کے عمل میں اَن گنت تجربے کئے ہیںمگر ان کے ہر تجربے کی بعثت اس وارفتگی سے ہوتی ہے جس میں ریاض کا وجود روزِ ازل سے گندھا ہوا ہے اور جو ریاض کے بس کی بات نہیں۔ نعت ان کا ’حال‘ ہے جو ان کے ازل سے ابد تک کے احوال پر محیط ہے۔ اپنے اس ’حال‘ میں بیتابیٔ جاں کے ہاتھوں وہ اس وقت تک لکھتے رہتے ہیں جب تک نعت ان کے نفسِ تخلیق میں اپنا پہلو نہیں بدلتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زود گو ہیں، دونعتیہ، سہ نعتیہ اور چہار نعتیہ لکھنے لگتے ہیں۔ ’ تمنائے حضوری‘ اور’ طلوعِ فجر‘ جیسی طویل نعت لکھتے ہیں اور اگلے ہی لمحے ان کا جذبۂ نعت پھر سے بحرِ مواج بن کر بے کراں ہونے لگتا ہے۔
اس ’حال‘ میں رہتے رہتے ان کے شعری عوامل سریرِ خامہ بن کر مقامِ قرطاس پر محوِ رقص ہو جاتے ہیں۔ الفاظ جیسے خود اپنی اپنی جگہ لینے لگیں۔ تشبیہات، استعارے، کنائے، علامتیں اور رعایتیں از خود اپنی شعری ساخت میں ڈھلنے لگیں۔ جیسے سحر پھوٹے، گلشنِ کلام میں صبائے تخیل کا خرام جادو جگانے لگے اور یوں ریاض کی نعت کی شعر ندی اس وقت تک اپنی جولانیوں کے ساتھ بہتی رہے جب تک کہ ان کے نفسِ تخلیق میں ان کی نعت خود قلبِ ہیئت کا فیصلہ نہ کرلے۔ پھر اگلے ہی لمحے ترشّحات ِنعت کا یہ سیلان ریاض کے ساتھ کسی اور تجربۂ تخلیق میں محوِ ستایش ہو جائے۔ اس طرح جب نعت خود اپنا بدن ٹٹول کر ریاض کی بیاض بن جائے تو یہ پھر ان پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیا نام دیں: زرِ معتبر، رزقِ ثنا، خلدِ سخن، آبروئے ما، زمزمِ عشق یا کچھ اور!
ریاض کی نعت بزبانِ اقبال ریاض سے کہتی رہتی ہے:
سیلم مرا بکوئے تنک مایۂ مپیچ
جولانگہے بوادی و کوہ و کمر بدہ
کہ میں تو ایک سیلاب ہوں، تنگنائے روایت میں سمٹا نہیں رہ سکتا۔ مجھے تو اپنے قدرتی بہاؤ کے ساتھ بہنے کے لئے وادیوں اور میدانوں کی پہنائیاں درکار ہیں اورمجھے ایسی ہی جولانگاہ کی ضرورت ہے جو میری طوفان سامانیوں کے لئے اپنی وسعتیں بچھا دے۔
نعت کیا ہے، عشق کے ساگر میں غرقابی کا نام
نعت کیا ہے، میرے ہر جذبے کی سیرابی کا نام
نعت کیا ہے ہجر میں سانسوں کی بے تابی کا نام
نعت کیا ہے، گنبدِ خضریٰ کی شادابی کا نام
نعت ہے بے آب صحراؤں میں پانی کی سبیل
نعت ہے اسمِ محمدؐ ہی کا اک عکسِ جمیل
پروفیسر محمد اکرم رضا نے ریاض کی تخلیقِ نعت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’شاعرِ خلدِ سخن کو رب کریم نے محبوب علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ثنا گوئی کے لئے جہاںہر دور میں ڈھل کر جدت طرازی کا سلیقہ وافر عطا کیا ہے، وہاں یہ امر خاص طور پر قابلِ تحسین ہے کہ جدت ادا اور رفعتِ زبان و بیاں کا کوئی سا پیرایہ اختیار کرتے ہوئے بھی انہوں نے ان مخصوص نظریاتی اور روحانی تقاضوں کو فراموش نہیں کیا جن سے نعت عبارت ہوتی ہے۔ تشبیہات، استعارات، اور تراکیب میں جدت بیانی اپنی جگہ مگر ریاض حسین چودھری کے ہاں نعت کے حوالے سے وہی سوز و گداز، ادب و احتیاط، والہانہ پن، خود سپردگی، عجز و نیاز مندی اور نامِ رسول ؐ پر مر مٹنے کے جذبات پوری شان کے ساتھ ملتے ہیں جو اوائل سفرِ نعت ہی سے ان کی نعت کا امتیاز رہے ہیں۔ ان کے والہانہ پن کے انداز بے اختیار پڑھنے والوں کی آنکھوں کو عقیدت کا نم عطا کرتے ہیں۔ ‘‘
در اصل ریاض جو نعت لکھنا چاہتے ہیں وہ ابھی تک لکھ نہیں پا رہے۔ وہ لکھتے چلے جا رہے ہیں مگر ’’ تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے‘‘ کے مصداق ابھی تک انہیں نعت کا ذوقِ نظر نہیں ملا۔ اسی کاوش میں وہ میسر اصنافِ شعر سے آگے نئے شعری تجربات کرتے چلے جا رہے ہیں کہ شائد انہیں ’’ذوقِ نظر‘‘ مل جائے۔ اور اب انہوں نے نعتِ معّریٰ کا انتخاب کیا ہے اور یہ کیفیت انہیں وقت کی حدود سے نکال کر آگے لے گئی ہے۔ وہ ہمارے زمانے میں رہتے ہیں مگر نعت آنے والے وقت میں بیٹھ کرلکھ رہے ہیں۔
’’کشکولِ آرزو‘‘ میں ریاض کی نعت کو ’’نعت میں تغزّل اور شعریت کی ایک وہبی صورت ‘‘ ورار دیتے ہوئے پروفیسر عبدالعزیز لکھتے ہیں: ’’حقائقِ حیات کے تنوع حوادثات زمانہ کی حشر سامانیوں اور انسان کے نفسِ خلاق کی حساسیت کے فروغ نے گریاباں چاک کرنتے کی بجائے نمودِ فن کے تتبع میں قبائے شعر ہی کو وسعتِ داماں سے ہم کنار کر دیا اور یوں عملِ تخلیق کا دریا حسن شعر کی جملہ رعناعیون کو اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے اچھل کر سمندر ہو گیااور اس طرح حسن شعریت کے نئے معیار وجود میں آئے۔ ‘‘
اس طرح اپنے تیرھویں مجموعہ کلام ’’دبستانِ نو‘‘ کے لئے ریاض نعتِ معرّیٰ لکھنے لگے جس کا تجربہ نعتیہ ادب میں ابھی تک کوئی نہیں کر سکا۔ پیرایہ اظہار ریاض کے ہاں وہ چار گرہ کپڑا ہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا ہے۔ ریاض کے اس مجموعۂ نعت میں پروفیسر عبدالعزیز کے بقول عوامل نعت نگاری کے تنوع اوروفور کی بدولت ان کے عملِ تخلیق کا دریا حسنِ شعریت کی جملہ رعنائیوں کے ساتھ اچھل کر سمندر ہو گیا ہے۔ جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاض کا شعورِ نعت آج سے ایک صدی بعد کی ہیئتِ نعت کا عرفان حاصل کر چکا ہے۔ اس طرح دبستانِ نو اگلی صدی کی نعت کی ہیئتِ ترکیبی کے خد و خال لئے ہوئے ہے۔ ھیئتِ نعت کی اس صدسالہ پیش بینی کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ امت پر انتشاروافتراق کی عتاب ناکیاں جو آج ہیں کل نہ تھیں جبکہ آنے والے وقت میں طوفانِ بلا کی بے کرانیاں حدِ ادراک سے ماورا نظر آتی ہیں۔ اس سے شعورِ نعت اور اس کے وسائلِ اظہار کی پہنائیاں بھی اسی قدر تصور و تخیل سے دور آگے نکل گئی ہیں۔ لمبے اور کٹھن سفر میںاضافی زادِ راہ گرا دیا جاتا ہے، ورنہ سفر کی رفتار مدھم اور منزل دور ہو جاتی ہے۔ معرّیٰ کا مفہوم بھی اضافی بوجھ گرانے اور کلام کو ردیف و قافیہ اور دیگر شعری پابندیوں سے آزاد رکھنے کا ہے۔ مگر ریاض نے ہمیںوہ ’’دبستانِ نو‘‘ دیا ہے جس میں معرّیٰ ہی سہی، رعنائی اظہار کا اھتمام ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح ان کی ’’دبستانِ نو‘‘ اس صدی کی آخری دہائی کی خوبصورت نعت ہے جو کل کے نعت گو کا فنی سرمایہ ہے۔ نعتِ ریاض تکنیکی اعتبار سے فن نعت نگاری کا بتدریج ارتقا ہے۔ قطعات کے علاوہ ثلاثی اور فردیات میں انہوں نے کمال فن پارے تخلیق کئے ہیں۔
ایک خستہ حال اور دل شکستہ امتی کیونکر بھی اپنے کریم آقاؐ کی بارگاہِ بے کس پناہ میںاپنی وارداتِ غم، معاملات ِ ہجرو وصل، سنگینیٔ حیات کے دوہے اور غمِ امت کے آثارِ اظہار پیش نہیں کرے گا۔ وارداتِ نعت اور غمِ امت کا یہی وفورِ بیان ریاض کا ’’دبستانِ نو‘‘ بھی ہے جو اپنے دامن میں درد، کسک، خلش، کیفیتِ الم، خدشات و خطرات اور خوف و حزن امان الخائفین ؐ کے حضور التجائے رحم و کرم لئے ہوئے ہے۔ یہی نعت اس صدی کی آنے والی دہائیوں پر محیط ہے۔
ریاض حسین چودھری جہانِ نعت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھے۔ 13 مجموعہ ہائے نعت ان کی زندگی میں شائع ہوئے جن کے بعد مزید دس مجموعوں کی طباعت و اشاعت باقی تھی۔ ’’لامحدود‘‘ اور’’ کائنات محوِ درود ہے‘‘ ان کی زندگی ہی میں پرنٹنگ کے لئے پریس بھیج دئیے گئے مگر وہ انہیں چھپا ہوا نہ دیکھ سکے۔ باقی آٹھ مجموعوں کی ترتیب و تدوین، کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ مکمل ہو چکی ہے۔ ان میں سے ’’برستی آنکھو، خیال رکھنا‘‘ شائع ہو چکا ہے جب کہ ساتھ اب اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کا نعتیہ کلام کوئی ساٹھ (60) ہزار سے زیادہ نعتیہ اشعارپر مشتمل ہے جبکہ ان کی نعت گوئی کا ایک بحرِ بیکراں اشاعت کے لئے بیتاب ہے۔ ڈائینیمک ویب سائٹ پر دن رات کام جاری ہے اور عنقریب ان کے کلام کی Android App بھی آپ کے موبائلز کی زینت بنے گی۔ ریاض کا قلم ایک سپہ سالار کی طرح حرف و معانی، تشبیہات، استعارات، علامات، رعایات و محاکات کو میدانِ اظہار میں صف در صف اپنی اپنی جگہ پر تعینات کرتا چلاجاتا ہے جہاں ریاض قدسیانِ درود مست کے ساتھ نغمۂ ستایش گنگنانے لگتے ہیں۔ اُن کے ہاں طرزِ اظہار اور انتخابِ پیرایہ و اصناف ایک لاشعوری عمل ہے جو خود بخود متشکل ہوتا ہے اور اُن کا وجدان ہی اس کی وسعت و رفعت کا تعین کرتا ہے۔
ریاض کی نعت وارداتِ توصیف و حیات، شدتِ غمِ رضائے رسولؐ، غم امت، وفورِ شوق، اظہار کی طوفان سامانیاں، ندرت فکر و نظر، تازگی، شگفتگی، اور جدت و وھبییت سے مزّین وہ غلافِ جذبۂ و خیال ہے جو کعبۂ شوق پر آویزاں ہے کہ جس کا طواف ان کی زندگی کے آخری سانس تک بھی ختم نہ ہوا۔ انہیں نعت نگاری کے عوض ملنے والے اجرِ عظیم کا یقین تھا کہ وہ جنت میں اعلیٰ علییّن کے مقام پر فائز ہوں گے مگر ان کی جنت تو مدینہ ہے۔ ہسپتال میں اپنی زندگی کی آخری سرجری کرانے سے پہلے آپریشن تھیٹر میں لے جائے جانے سے پہلے انہوں زندگی کا آخری شعر کہا اور پھر یہ بھی کہا کہ یہ ان کا آخری شعر ہے، وہ یوں ہے:
میں اکثر سوچتا رہتا ہوں اے کونین کے مالک
تری جنت مدینے سے کہاں تک مختلف ہو گی
ریاض کی نعت کا حسن تغزل
ادبِ عالیہ کے تمام تخلیق کار اور اساتذہ نے اپنے اپنے انداز میں ریاض کو نعت نگاری کے مسند پیشوائیت پہ فائز دیکھا ہے۔ اور ان کے تخلیقی تجربے کے کمال کو تغزل کا کرشمہ قرار دیا ہے۔ ریاض خود مدحت نگاری کو گزل گوئی سے اعلیٰ و ارفع تخلیقی تجربہ ورار دیتے ہیں چنانچہ محض اسی نکتے پر تجربۂ نعت نگاری کو مرکوز کرتے ہو ئے آپ نے ایک خوبصورت مجموعہ کلام تخلیق کیا جس کا نام ہی ’’غزل کاسہ بکف‘‘ رکھا۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ فن شعر کے حقیقی حسن اور اس کے تخلیقی عمل میں ملحوظ رکھے جانے والے عوامل سے عملاً آگاہ تھے اور پورے اہتمام سے نعت لکھتے تھے۔ ہمارے وہ قارئین جو تخلیقِ فن کی عملی اساس کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ یقیناً ریاض کی نعت نگاری کی اس عملی تدبیر کاری کو سمجھنا پسند کریں گے۔
حسرتِ اظہار ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے جس کا سامنا ہر وہ نفسِ مدّرک کرتا ہے جس کا مسئلہ اظہار ہے۔ ادب نثر ہو یا شعر، اپنی ہر صنف میں اظہار کی ایک جہدِ مسلسل ہی تو ہے۔ پھر جس ادیب یا شاعرکے اظہار میں زیادہ وسعت اور تہذیب ہو اس کا مرتبہ اور مقام اسی لحاظ سے متعین ہو جاتا ہے۔ مگر یہ تو ہر ادبی کاوش کے حوالے سے ایک عمومی بات ہے۔
بات نعتِ مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے ہو یا مالک الملک کی حمد و ثناء کے ضمن میں، اظہار کے سب وسائل اور ذرائع ہیچ ہوتے ہیں اور طبعِ مشّاق طفلِ مکتب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ غالب اردو غزل کے شہنشاہ ہیں مگر جب ان کی طبع نعت پر متوجہ ہوتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
وہ دیکھ لیتے ہیں کہ نعت میں اظہارِ محبت و عقیدت اور ثنائے خواجہ کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے اور یہی عجز اور اس کا پاکیزہ پیرایۂ اظہار ان کا تجربۂ نعت بن جاتا ہے۔
یہ تجربہ ان سے پہلے سعدی شیرازی نے بھی کیا تھا جب انہوں نے لکھا:
لا یمکن الثناء کما کان حقہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
تجربۂ شعریت سے گزرنے والے ہر حساس ذہن نے یہ عجز محسوس کیا اور قصۂ مختصر کو نعت کی معراج سے ہمکنار کر دیا۔ دیکھنے میں یہ حسرتِ اظہار کا اعتراف ہی تو ہے۔
شعری تجربہ ایک متنوع تخلیقی عمل ہے۔ ضروریاتِ اظہار نے اصنافِ شعر تخلیق کیں اور تنوع وجود میں آیا۔ غزل سے نہ بن پڑی تو بات نظم تک پہنچی، وہی نظم کہیں قصیدہ بن گئی کہیں مرثیہ کی شکل میں ڈھل گئی اور کہیں مثنوی کی خلعتِ فاخرہ میں ملبوس ہو گئی۔ غالباً یہ ادب میں نظریۂ ضرورت کی حقانیت کی مختلف صورتیں ہیں۔ مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نظم میں، مرثیہ ہو، قصیدہ ہو یا مثنوی، تغزل کا گذرممکن نہیں۔ شعری حسن جہاں جہاں نظر آئے گا اس کی تہ میں تغزل کے دھنک رنگ ضرور بکھرے ملیں گے۔ حالیؔ غزل کے بے پناہ شاعر تھے اور مسدس کا کینوس تغزل کے رنگوں سے عاری نہیں۔ مرزا انیس جب مرثیہ نگاری کی معراج کو پہنچتے ہیں تو غزل ان کو کاندھا دیئے کھڑی ملتی ہے۔ مثنوی میں حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام کا تذکرہ کئے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی مگر وہ حفیظ جو غزل میں ملتے ہیں مثنوی شاہنامہ اسلام میں جا بجا ملتے ہیں اور وہیں وہ نعت بھی کہہ رہے ہوتے ہیں حالانکہ مثنوی ایک ایسی صنف ہے جس میں سحر البیان اورزہرِ عشق کی روایت اردو ادب کا تاریخی ورثہ ہے۔
یہ بات رہی نظم کی مختلف صورتوں میں غزل کے تصرف کی۔ جب ہم غزل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں قصیدہ جھلملاتا نظر آتا ہے۔ میر دردؔ، میر تقی میرؔ اور غالبؔ کے ہم عصر ہیں مگر ان کی غزل میں حمد کے مضامین برگد کی گھنی چھائوں کی طرح سایہ فگن ہیں۔ امیر مینائی کے کلام میں ہمیں جہاں جہاں مینائی ملتے ہیں وہاں وہاں شعری تجربہ حمد و تصوف کے گہرے پانیوں میں غوطہ زن ملتا ہے۔
مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ تمام اصنافِ شعر خواجہِ کونین ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں سرنگوں ہو کر ہدیۂ درود و سلام پیش کر کے نجاتِ اخروی کا جواز حاصل کرتی ہیں۔ شعرائے نعت کے ہمراہ یہ سب اصناف بھی اس حقیقت سے آگاہ نظر آتی ہیں:
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
محسن کاکوروی نے کیا خوب کہا ہے:
ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر نہ قطعہ نہ قصیدہ نہ غزل
مگر تمام اصناف ِشعر میں غزل کے شعراء مقام معراج پر ہیں کیونکہ انہیں غزل کا براّق میسر ہے جو مقامِ سدرہ تک پرفشاں رہتا ہے۔ فیض، احمد فراز اور احمد ندیم قاسمی کی غزل ہو یا حفیظ تائب کی نعت، شعریت اور تغزل کے حوالے سے ایک ہی تہذیبی، ادبی، لسانی اور فنی وسائل و ذرائع سے مستفیض ہوتے نظر آتے ہیں۔
نعت ایک شعری تجربہ ہے جو اپنے تخلیقی عمل کے اعتبار سے غزل ہی کی ایک صورت ہے اور نعت کے وہ شعراء جو غزل گو تھے کمالِ فن کو پہنچے۔ نعت مثنوی، قصیدہ اور مرثیہ، معریٰ آزاد نظم ہر تخلیقی قالب میں موجود نظر آتی ہے مگر فنِ نعت کا خمیر تغزل سے اٹھتا ہے اور نعت کا حسن، حسنِ تغزل میں ملفوف ہے۔ یہی بات جناب احمد ندیم قاسمی نے ریاض حسین چودھری کی’’ زر معتبر ‘‘کا پسِ ورق لکھتے ہوئے تحریر کی ہے:
’’گزشتہ ربع صدی میں ہمارے ہاں نعت نگاری نے بہت فروغ پایا ہے۔ جن شعراء نے اس صنفِ سخن میں ہمیشہ زندہ رہنے والے اضافے کئے ہیں ان میں ریاض حسین چودھری کا نام بوجوہ روشن ہے۔ اس دور کے سب سے بڑے نعت نگار حفیظ تائب نیز ایک اوراہم نعت نگار حافظ لدھیانوی کی طرح ریاض حسین چودھری نے بھی آغاز غزل سے کیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
میں اس میں صرف یہ اضافہ کروں گا کہ ریاض کی نعت نے جدید غزل کو وہ وسعتِ داماں عطا کی ہے جو اس سے پہلے اردو غزل کے حصے میں نہ آ سکی۔ اگر غزل کو ھیئت اور مخصوص مضامین کے شکنجے سے آزاد ایک تخلیقی تجربہ سمجھا جائے جو محبت کی سرشاری اور لفظ اور لہجے کی موسیقی سے وجود میں آتا ہے تو یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ غزل نے آستانۂ ریاض سے جی بھر کر فیض پایا ہے۔ اردو غزل کا دامن بہت وسیع ہے اور نعت کا کینوس تو زمان و مکاں سے بھی ماوراء ہے۔ اس طرح نعت غزل کے مقابلے میں وسیع تر شعری اور تخلیقی تجربہ ہے مگر یہ دو اصنافِ شعر ہم جنس ہیں اور ایک ساتھ محوِ پرواز ہیں۔ ہاں اگر غزل کی پرواز زمان و مکاں تک محدود ہے تو نعت کی جولا نگاہ ان سے ماوراء ہے۔ اس مقام پر غزل عجز و نیاز میں سر نگوں نظر آتی ہے۔
اردو غزل پر یوسف حسین خاں اور ان کے بعد آنے والے نقاد مؤرخین نے دل کھول کر لکھا ہے۔ یہاں اوصافِ غزل کا احاطہ مقصود نہیں مگر اتنا جاننا ضروری ہے جیسا کہ جدید تر اردو غزل میں ارشد محمود شاد لکھتے ہیں:
’’غزل کے طویل تخلیقی سفر کو نگاہ میں رکھیں تو یہ معلوم ہو جائے گا کہ غزل ایسی عجیب صنفِ سخن ہے جو بیک وقت لچک بھی رکھتی ہے اور شدت بھی۔ یہ دونوں حالتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں تاہم غزل کا مزاج انہی دو متضاد حالتوں کے ارتباط سے عبارت ہے۔ غزل نے نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور اپنے دائرے کو وسعت آشنا کرنے کے لئے ہمیشہ اظہار کی نئی صورتوں کے لئے درِ دل وا رکھا ہے۔ غزل کا یہ رویہ اس کی لچک کا غماز ہے۔ اس کے برعکس غزل اپنے معیارات کی سختی سے پابند رہی ہے اور ان معیارات پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنا اس کے مزاج میں شامل نہیں ہے۔ غزل کا یہ رویہ شدت اور سختی کو ظاہر کرتا ہے۔ غزل کے ان دونوں رویوں کو نگاہ میں رکھے بغیر اس کے مزاج کو مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کے حوالے سے کئے گئے ایسے تجربات ناکام ہوتے ہیں جن میں غزل کی لچک اور شدت کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔ ‘‘
غزل کی یہی لچک ہے جس سے ایک نفسِ خلّاق غزل کہتے کہتے وادیٔ بطحا کی تخلیقی وسعتوں کا زائر بن جاتا ہے۔ غزل نے اپنے دائرے کو وسعت سے کیونکر آشنا کرنا ہوتا ہے؟ اس لئے کہ یہی اس کا مزاج ہے۔ غزل بطور صنفِ شعر وادیٔ نعت کے حوالے سے اپنا دامن نہیں سمیٹتی بلکہ گریباں چاک، وارفتہ، منزلِ جاناں کی طرف لپکتی ہے کہ یہ تو وہ آستانہ ہے جہاں سے ہر بھکاری زمان و مکاں کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر اٹھتا ہے۔ پھر نعت کے تخلیقی تجربے کو تغزل سے کیونکر متفرق رکھا جائے! غزل اپنے مزاج کی اسی وارفتگی کی بدولت درِ حبیب پر کاسہ بکف ہے کہ اس میں وسعتِ دوراں، دردِ پنہاں، شبِ ہجراں، بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل، اور جدید تر اردو غزل کا وہ سارا علاماتی لائو لشکر جو آج کے دور میں اس کی فتح کا ضامن ہے، اس کے ارتقاء کا سامان کرتا رہتا ہے، جہانِ نعت میں یہ سب کچھ اسے وافر ملتا ہے۔
ریاض حسین چودھری کا اس صنفِ ادب کے حوالے سے یہی وسیع تر، جدید تر اور حقائق پر مبنی وہ فلسفۂ تخلیقِ فن ہے جس کا احساس اُس شعر سے شروع ہوتا ہے جو ریاض نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی نعت تخلیق کرتے ہوئے لکھا اور جو آج تک ان کے احساسِ فن پر محیط ہے۔ آج البتہ اس فلسفے کا تخلیقی اظہار ’’غزل کاسہ بکف ‘‘کی صورت میں مجسم نظر آتا ہے۔ ریاض کا یہ وہ کارنامہ ہے جس سے انہیں تغزلِ نعت میں امامت کا مقام عطا ہوا ہے۔
ریاض کا پہلا شعری مجموعہ’’ زر معتبر‘‘ جولائی 1995 میں شائع ہوا جس میں تخلیقِ نعت میں احساس تغزل طلوع صبح کی مانند روشن ہے:
آنسوؤں سے فروزاں ہے بزمِ غزل
تلخ ہے شعر کا ذائقہ یا نبیؐ
میرے الفاظ کو بھی دھڑکنا سکھا
میری مقبول ہو التجا یا نبیؐ
زرِ معتبر ہی کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ وہ اپنے فنِ نعت کو غزل ہی سمجھتے ہیں :
کروں میں بھی حنا بندی گلستانِ سخن تیری
غزل کہتی چلے صلِ علیٰ طیبہ کی گلیوں میں
زرِ معتبر میں ریاض چودھری نعت نگاری کا اہتمام کرتے ہوئے ’’اہتمام‘‘ کے عنوان سے لکھی ہوئی نظم میں غزل گو ہیں:
زباں آبِ زر سے وضو کر کے آئے
لغت کورے کاغذ پہ آنکھیں بچھائے
پسِ حرف جذبوں کی مشعل جلائے
تغزل جبینِ سخن کو سجائے
دھنک سات رنگوں کی رم جھم اٹھائے
مرے دامنِ شعر میں جھلملائے
قصیدہ جمالِ نبیؐ کا سنائے
غزل مجھ پہ احسان اپنا جتائے
’’اہتمام‘‘ کے اشعار پڑھنے سے یہ تصور ضرور واضح ہوتا ہے کہ ریاض غزل سے کیا مراد لیتے ہیں۔ احساسِ تغزل کے حوالے سے زرِ معتبر کے درج ذیل اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں:
ثروتِ جمہور ہو جانِ ابد روحِ ازل
ڈھونڈتی ہے تیرے دل آویز جلووں کو غزل
ورق کو ذوقِ جمال دے گا قلم کو حسنِ مقال دے گا
اسی کا ذکرِ جمیل شہرِ غزل کی گلیاں اجال دے گا
حشر تک یا خدا کاش ایسا بھی ہو میَں حریمِ غزل کے چمن زار
میں
پھول حبِ نبیؐ کے کھلاتا رہوں فصل عشقِ نبیؐ کی اگاتا رہوں
اسے بھی نسبت کا ایک جرعہ عطا ہوا ہے در نبیؐ سے
بلندیوں پر اڑا کرے گا غزل کے بختِ رسا کا پرچم
ستمبر 2000ء میں ان کا دوسرا مجموعہ نعت رزقِ ثناء صدارتی ایوارڈ سے مزین ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں آیا۔ نعت نگاری میں اپنے احساسِ تغزل کی یوں تعریف کرتے ہیں :
کیف میں ڈوبی رہے شہرِ تغزل کی فضا
وجد میں آئے صبا حرفِ دعا سے پہلے
مذاقِ شعر میں رکھ کر گداز و سوز کی مشعل
مجھے مدحت نگاری کا سلیقہ یا خدا دے دے
نعت نگاری کے عملِ تخلیق پر ریاض اپنی مفکّرانہ شعریت کی نظر ڈالتے ہوئے رزقِ ثناء میں ہمیں بھی یہ آگہی عطا کرتے ہیں کہ فنِ تخلیق کا شاہکار’’ نعت‘‘ ہے کیا !
نعت کیا ہے لب بہ لب طیبہ کے میخانے کا نام
نعت کیا ہے آنسوئوں کے رقص میں آنے کا نام
نعت کیا ہے لوحِ جاں پر پھول بکھرانے کا نام
نعت کیا ہے انؐ کی چوکھٹ پر مچل جانے کا نام
نعت کہنے کے لئے دل پاک ہونا چاہئے
غرقِ الفت دیدۂ نمناک ہونا چاہئے
یہ ہے وہ نعت جو ریاض لکھتے ہیں۔ اس نعت سے غزل کتنے فاصلے پر خیمہ زن ہے اس پیمایش کے لئے ریاض کے جنونِ نعت کے ایسے ادراک کی ضرورت ہے جو اس نکتے کو پا سکے کہ ریاض کا لاشعور ان کے اپنے شعورِ ذات کی زد میں ہے جس کا وجود یومِ الست سے پہلے ممکن نہیں اور جس کی انتہا ماورائے حشر ہو نہیں سکتی۔ اور ریاض کو اپنی نعت کا شعورِ الست بھی حاصل ہے اور اس نعت کا روزِ حشر بھی انہیں صاف دکھائی دیتا ہے۔ اور نعت کا یہ وہ شعور ذات ہے جو ماضی و حال میں آج تک کسی کے حصے میں نظر نہیں آتا۔ یہ انفرادیت ریاض کی نعت اور ذات کو وجدانی طور پر عطا ہوئی ہے۔
لحد میں پوچھا نکیرین نے کہ کون ہو تم
حضوؐر، آپ کا بس نام حافظے میں رہا
فرشتوں نے بیاضِ نعت میرے ہاتھ پر رکھ دی
مری بخشش کا بھی محشر میں ساماں ہونے والا ہے
اور وہ اپنے مجموعہ کلام ’’رزقِ ثناء‘‘ میں’’ آرزو‘‘ کے عنوان سے نظم میں میدانِ محشر کا نقشہ کھینچ کر اپنے شعورِ نعت کی چاندنی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم ﷺ ریاض کو اپنے پورے کنبے کے ہمراہ اذنِ حاضری عطا فرما رہے ہیں :
یہ آرزو ہے سرِ حشر آپؐ فرمائیں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ ہمارے شاعر کو
چراغِ عشق سجا کر ہتھیلیوں پہ ریاض
کسی کو نعت ہماری سنا رہا ہو گا
انہیں اس بات کا شعورِ حاصل ہے کے سرِ محشران کا معاملہ نعتِ رسول کے حوالے سے ہی ہو گا۔ جو بھی نامۂ اعمال انہیں ملے گا وہ زرِ معتبر سے لے کر خلدِ سخن اور اب غزل کاسہ بکف اور اس کے بعد آنے والے ان کے دیگر مجموعہ ہائے نعت کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے :
بیاضِ نعت لئے چھپ کے میں کھڑا تھا ریاضؔ
کسی نے نام سرِ حشر لے لیا میرا
ان کا مجموعہ کلام متاعِ قلم مئی 2001ء میں شائع ہوا۔ رزقِ ثنا سے سرشار یہاں بھی ریاض غزل کو خراجِ تحسین پیش کرنا نہیں بھولتے۔ اپنی شعریت کا احساسِ تغزل انہیں ہر وقت دامن گیر رہتا ہے :
سنائے نعتِ پیمبرؐ غزل مدینے میں
سمائِ شعر ستارے اگل مدینے میں
یہ اقتدائے حضرتِ حسّاںؓ کا دور ہے
دم سادھ لے سخن کی گلی میں غزل ذرا
ریاض حسین چودھری کا کشکولِ آرزو مئی 2002ء میں چھپ کر آیا۔ احساسِ تغزل کی تجلی یہاں بھی ضو فشاں ملتی ہے :
تلاشِ رزقِ دل لائی ہے بزمِ شعر میں مجھ کو
مری کشتِ غزل فصلِ ثنائے مجتبیٰ لائے
دھنک، گلاب، ہوا، چاندنی، صبا، شبنم
بفیضِ نعت دیارِ ہنر میں رہتے ہیں
الغرض ریاض کا کوئی شعری تجربہ احساسِ تغزل سے مبریٰ نہیں اور ہوتے ہوتے یہ احساس آپ کے نطقِ نعت پر یوں محیط ہو گیا کہ انہوں نے اس کا بھرپور اظہار چاہا اور لکھنے لگے تو ’’غزل کاسہ بکف‘‘ لکھنے لگے جس میں ہمیں ہشت نعتیہ، چہار نعتیہ، سہ نعتیہ اور دو نعتیہ کلام کا ایک بحرِ مواّج طوفاں بدوش نظر آتا ہے۔ لکھنے لگتے ہیں تو لکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے ’’زر ِمعتبر‘‘ پر لکھتے ہوئے اپنا مشاہدہ یوں بیان کیا ہے :
’’ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ جب نعت کا آغاز کرتے ہیں تو ان پر وارفتگی اور سپردگی کی ایسی کیفیت چھا جاتی ہے جسے وہ ہر ممکن حد تک جاری رکھنا چاہتے ہیں اور نعت یا نعتیہ نظم یا نعتیہ قصیدے کو انجام تک پہنچانے کو ان کا جی نہیں چاہتا۔ ‘‘
’’غزل کاسہ بکف‘‘ اسی کیفیت کے آبِ خنک کی وہ سبک رفتار ندی ہے جو رواں ہے معطر ہے، بہار بداماں ہے اور ہستی کا نکھار بن کر جھومتی بہتی چلی جاتی ہے۔ اس کی سطح پر کئی بیقرارو بیخود موجیں لچکتی مچلتی ایک دوسرے میں گم ہوتی چلی جاتی ہیں اور کچھ ہی ثانیے بعد پھر اسی سطحِ آب پر نئی آب و تاب کے ساتھ رقصاں و خیزاں نظر آنے لگتی ہیں۔ اس کیفیت ِ جنوں کو قدرتِ زبان کے حوالے سے دیکھیں تو سید جعفر طاہر کی ’’ہفت کشور‘‘ یاد آتی ہے۔ نہ کہیں روانی تھمتی ہے نہ شگفتگی اور تازگی میں کمی نظر آتی ہے۔ ایک کاروانِ بہار ہے جو اپنے تمام رنگوں اور عطر بیزیوں کے سیلانِ متحدہ کے ساتھ ہر سو رواں ہے جس میں ریاض خود بھی مہک رہے ہیں اور سارے عالمِ نطق و سماعت کو بھی مہکا رہے ہیں۔ ان پر یقیناًسرکار دو عالم ﷺ کا خصوصی کرم ہے۔
اگرچہ کتاب کا نام ہی ’’غزل کاسہ بکف‘‘ ہے ریاض شعر کہتے ہوئے احساسِ تغزّل سے آزاد نہیں ہو پائے۔ چنانچہ اس کتاب میں بھی اسی حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
رتجگا نعتِ مسلسل کا ہے بستی بستی
شب نے کس تارِ تغزّل سے بُنی ہیں آنکھیں
لکھے عروسِ شہرِ غزل نعتِ مصطفیٰ
قصرِ ادب کے سبز حوالو! ادب ادب
موسم ثنا کا شہرِ غزل میں مقیم ہے
کلیاں سخن کی بانٹتی ہے آج بھی ہوا
ریاض کا نظامِ علامت نگاری
کوئی غزل گو شاعر علامتی پیرائے میں اظہار کے بغیر جدید معیاری غزل تخلیق نہیں کر سکتا۔ اس لحاظ سے قدیم شعراء کے ہاں بھی جدید حسنِ شعریت اورحسنِ تغزّل علامات کی کہکشائوں سے ہی کشید ہوا ہے۔ علامت غزل کی روایت ہے۔ جس نے جتنی مربوط علامت استعمال کی، اتنی ہی تحسین پائی۔ محسن کاکوروی ہوں، حافظ لدھیانوی ہوں یا حفیظ تائب، سب نے علامتی پیرایۂ اظہار سے نعت نگاری کو حسنِ تغزل بخشا ہے۔ ریاض حسین چودھری کے ہاں ہمیں اس پیرایۂ اظہار کے تشّہد میں ایک پورا علامتی نظام نظر آتا ہے۔ ہر لفظ کا ہر دوسرے لفظ، ہر استعارہ و تشبیہہ اور ہر علامت کا حرف حرف سے قریبی اور قلبی تعلق ہے۔ ان کا قلم ان کا مصاحب ہے مشیر ہے اور وفا شعار دوست کی طرح ان پر نچھاور ہوتا رہتا ہے، رعائتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ریاض کے سامنے رکھتا ہے اور وہ ان کوسرمہ کی طرح چشمِ قلم میں لگا کر اس کی آبِ بصیرت کو تیز تر کر دیتے ہیں۔ ریاض جس لفظ کو اٹھا کر جس لفظ کے ساتھ چاہیں جوڑ لیں، معنوی حسن کی سیج سجتی ہی چلی جائے گی۔ گہرائی اور گیرائی آسمان سے نازل ہوتی دکھائی دے گی۔ ملائکہ کے پر نظر آنے لگیں گے۔ ہوا آتی جاتی گنگناتی سنائی دے گی، قلم حسنِ حرف و صوت میں مسرورو رقصاں حسنِ تغزل کو دادِ تحسین دے رہا ہو گا، لفظ لفظ نشۂ معنیٰ کا جام پیتا ملے گا۔ بال و پر اُگتے، اُڑتے، جھڑتے ملیں گے۔ خوشبو تسکین کدۂ نعت کی تزئین کر رہی ہو گی، قبر ہو یا حشر، ریاض درِ مصطفیٰ ﷺ پر ہی ملے گا، نعت کہتا ہی ملے گا، نعت سناتا ہی ملے گا۔ ریاض ہرگز تنہا نہیں۔ اس کی علاماتِ تغزّل اس کے زندہ اصحاب و احباب ہیں۔ حرف و قلم ہوں یا ورق، نطق ہو یا لہجہ، پھول ہوں یا دھنک، ہوا ہو یا طاق، چراغ ہو یا ہتھیلی، فصلِ گل ہو یا خلدِ سخن، موسمِ ثنا ہو یا سخن کی کلیاں، مصرع ہو یا غزل، اشعارِ نعت ہوں یا زائرینِ مدینہ، راستے ہوں یا شام و سحر سب کچھ ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے، تتلیاں بھی اور جگنو بھی، ہوا اور اس کے ہاتھ بھی اور چراغ بھی، ہاتھ کی لکیریں اور راستے بھی اور روشنی بھی، اور میں بوجوہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ریاض روشنی کے شاعر ہیں۔
ان کا گھر بار بچے بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک خاندان کی طرح آپس میں کئی معنوی رشتوں میں پروئے ہوئے ہیں۔ ان کی شاعری سے وطن اور امت کو نکال دیں تو ان کا قصرِ علامات بجھ جائے گا۔ ریاض ایک ماہرِ فن، جو کہ وہ ہیں، جس لفظ کو جس کے ساتھ چاہیں جوڑ کر نئے نئے استعارے، معانی اور نئے نئے مضامین تخلیق کرتے چلے جائیں، وہ اس راہ پر چلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ نہ کہیں رکتے ہیں نہ تھکتے ہیں اور نہ تنہا ہوتے ہیں۔ ایک کارواں ہے جو ان کے ساتھ ساتھ رواں دواں ہے اور یہ خود اس کے قافلہ سالار ہیں :
نعتِ حضور چشمۂ انوار ہے مگر
ہے لفظ لفظ نعت کا تنہا بھی روشنی
مصرع اٹھا رہے ہیں نئی نعت کا ریاضؔ
شبنم، دھنک، چراغ، شفق، چاندنی، ہوا
ریاض کے مجموعہ ہائے نعت
جناب ریاض کے اب تک 15 مجموعہ ہائے نعت شائع ہو چکے ہیں۔
ہم ڈاکٹر شہزاد احمد صاحب کے بے حد ممنون ہیں کہ انہوں نے مرکزِ ’’حمد و نعت ‘‘ کراچی سے ریاض حسین چودھری صاحب کے نعتیہ کلام کے پندرھویں مجموعے ’’کائنات محوِ درود ہے‘‘ کے لئے ’’ ریاض حسین چودھری کی نعت اور نعتیہ کتب‘‘ کے موضوع پر بھرپور تعارفی تحریر لکھی۔ جناب ریاض کے مجموعہ ہائے نعت کا درج ذیل تعارف انہی کی تحریر سے ماخوذ ہے۔ آئیے ایک ایک کر کے ان کا جائزہ یتے ہیں۔
زرِ معتبر جولائی 1995ء (پہلا مجموعۂ نعت)
’’زرِ معتبر‘‘ جولائی 1995ء میں شائع ہونے والا ریاضؔ حسین چودھری کا پہلا نعتیہ کلام منسوب ’’اِس کائناتِ رنگ وبوُ کے خالق و مالک کے نام، جس نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید اپنے محبوب پر نعتِ مسلسل کی صورت میں نازل فرمایا۔ ‘‘ زرِ معتبر کا تعارف ’’پیشوائی‘‘ لکھنے کاشرف حفیظ تائبؔ کو حاصل ہے۔ جبکہ سرورق احمد ندیمؔ قاسمی نے لکھا ہے۔ ریاض حسین چودھری نے اس کتاب میں شاعر کا اپنا مقدمہ ’’تحدیثِ نعمت‘‘ کے عنوان سے اس کتاب کا بے مثال مقدمہ لکھا ہے جو کہ دل کے تاروں کو چھڑنے والا نثری شہ پارہ ہے اورجس کا مطالعہ شرحِ صدر کا باعث ہے۔ زیادہ تر نعتیں غزل کی ہیئت میں کہی گئی ہیں جب کہ اس میں نعتیہ شاعری کو آزاد اور پابند نظموں کو وسیع امکانات کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ قطعات میں ذاتی کیفیات کی رم جھم اتر رہی ہے۔ نو بہ نو ردیفوں اور نت نئی زمینیوں میں کیفیات نعت کی پھوار پڑ رہی ہے۔ اس طرح’’زرِ معتبر‘‘ جدید اُردو نعت کا ایک مستند حوالہ ہے۔ حفیظ تائبؔ نے اپنی تحریر کردہ ’’پیشوائی‘‘ میں ریاضؔ چودھری کی نعتیہ شاعری کا محاکمہ خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
’’ریاضؔ حسین چودھری کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر دین و آئین رسالت کے ساتھ ساتھ، عہدِ جدید کے معتبر حوالوں سے اُٹھا ہے ان میں تقدس بھی ہے اور تازہ کاری بھی، اُس کا اسلوب اُردو شاعری کی تمام تر جمالیات سے مستنیر ہے اور اسے جدّت و شائستگی کا معیار قرار دیا جاسکتا ہے۔ ‘‘
رزقِ ثنا یکم جون 1999ء (دوسرا مجموعۂ نعت)
’’رزقِ ثنا‘‘ یکم جون 1999ء کا طبع شدہ ہے۔ یہ ریاضؔ حسین چودھری کا دوسرا مجموعہ نعت ہے۔ اس کا انتساب : ’’برادرِ مکرم الحاج محمد شفیع کے نام، کہ دمِ آخر بھی جن کے ہونٹوں پر حضور ختمیٔ مرتبت کی شفاعت کی تمنّا حرفِ التجابن کر مچلتی رہی‘‘۔ اِسے حکومتِ پاکستان نے 2000ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ ثانیاً حکومتِ پنجاب نے 2000ء میں صوبائی سیرت ایوارڈ دیا۔ جب کہ اسے سیرت اسٹیڈی سینٹر، سیالکوٹ اور تحریکِ منہاج القرآن نے خصوصی ایوارڈ سے نوازا۔ زیادہ تر نعتیہ کلام اس میں غزل کی ہیئت میں کہا گیا ہے۔ پابند نظموں کے علاوہ آزاد نظمیں، حمد ونعت، صلوٰۃ و سلام بدرگاہِ خیرالانام، قطعات اور نعتیہ گیت بھی شامل ہیں۔ ’’رزقِ ثنا‘‘ میںریاضؔ چودھری کی نعت میں وہ تمام فنّی اور معنوی تلازمات ہمیں دکھائی دیتے ہیں، جو روایت سے جدّت کی جانب ارتقا پذیر ہیں۔ ریاض کی توانا آواز، تلمیحات و استعارات کا برجستہ استعمال انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عاصیؔ کرنالی لکھتے ہیں :
’’آج کی نعت جہاں روایت کے مذکورہ بالا اجزا و صفات سے پُر دامن ہے، وہیں اُمت کے اجتماعی احوال و مسائل کی عکاس اور ترجمان بھی ہے یعنی عصرِ حاضر میں نعت ذات اور اجتماعیت دونوں پہلوئوں اور جہتوں کی نمائندگی کر رہی ہے۔ ‘‘
ریاضؔ حسین چودھری اپنا دل صفحۂ قرطاس پہ رکھتے ہوئے کتاب کے اندرونی سرِ ورق سے پہلے یہ شعر لکھتے ہیں : ؎
حشر تک چین سے سو جائو فرشتوں نے کہا
دیکھ کر قبر میں بھی صلِّ علیٰ کا موسم
تمنّائے حضوری جون 2000ء (تیسرا مجموعۂ نعت)
’’اکیسویں صدی کے نام کہ یہ صدی بھی میرے پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صدی ہے‘‘۔ ’لمحاتِ حاضری کی تمنّا لیے ہوئے‘‘ کے عنوان سے ریاض حُسین چودھری کی دل کشا اور معلومات افزا تحریر تمنّائے حضوری و حاضری سے لب ریز ہے۔ ریاض اپنی اس طویل نعتیہ نظم کے ابتدائی قطعات میں ایک حمدیہ مصرعہ کی چھایا میں نعت کی مالا جپ رہے ہیں۔ ہر قطعہ نئے مضمون سے آراستہ ہے۔ یہ قطعات وجدانی کیفیات کے حامل ہیں جن میں شاعر نے اپنی تمنائے حاضری کو تمنّائے حضوری میں سمو دیا ہے۔
تمنّائے حضوری میں ریاض حسین چودھری کا درِ عطا پر پلکوں سے دستک دینے کا انداز ملاحظہ کریں۔
’’بچپن سے لے کر آج تک میرا معمول یہ رہا ہے کہ دشوار، کٹھن اور مشکل لمحات میں اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دستگیری کی التجا کرنے اور مشکل کشائی کی درخواست گزارنے کے بعد آمنہ کے لال حضور ختمیٔ مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے درِ عطا پر بھی پلکوں سے دستک دینے کا اعزاز حاصل کرتا ہوں، آنکھوں بند کرکے ہونٹوں پر درودوں کے گلاب سجا لیتا ہوں۔ ‘‘
متاعِ قلم مئی 2001ء (چوتھا مجموعۂ نعت)
’’متاعِ قلم‘‘ چوتھا مجموعہ کلام یکم ربیع الاوّل 1422ھ (مطابق 2001ء) : ’’دادا مرحوم حاجی عطا محمد والدِ مرحوم الحاج چودھری عبدالحمید کے نام، جن کی آغوشِ تربیت نے ہوائے مدینہ سے ہم کلامی کے شرفِ دل نواز سے نوازا۔ ‘‘
آسیؔ ضیائی، ریاضؔ حسین چودھری کے اُستاذِ گرامی انتہائی بلیغ انداز میں اپنے شاگردِ رشید کی خداداد صلاحیتوں کا برملا اعتراف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’پڑھنے والا خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ شاعر کا ہر شعر محبت و عقیدتِ رسول کی ُکھلی تصویر ہے۔ اور اس میں سے شاعر کے سچّے، مخلصانہ جذبات پھوٹے پڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی، قاری یہ بھی محسوس کرے گا کہ نعت نگار نے اندازِ بیان میں بھی، اور فکر و خیال میں بھی، جدّت طرازی کو ملحوظ رکھا ہے، جب کہ کہیں بھی احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دی ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر سلیم اخترؔلکھتے ہیں :
’’ریاضؔ حسین چودھری نام و نمود کے سراب کے لیے سرگرداں نہیں۔ انھوں نے تو نعت گوئی داخلی کیفیات کے زیرِ اثر اختیار کی ہے، اس لیے وہ مدحتِ رسول کو مقصودِ فن اور ثنائے رسول ہی کو قبلۂ فن جانتے ہیں۔ ریاضؔ حسین چودھری دنیاداری کے تقاضوں والے دنیادار شاعر نہیں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے خود کو صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ‘‘
کشکولِ آرزو مئی 2002ء (پانچواں مجموعۂ نعت)
’’کشکولِ آرزو‘‘ (یکم ربیع الاوّل 1423ھ مطابق مئی 2002ئ) : ’’خوشبوئے اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام، کہ آخرِ شب جب تشنہ لبوں پر اپنے پَر پھیلاتی ہے تو لہو کی ایک ایک بوند رقص میں آجاتی ہے‘‘۔ یہ کتاب پابند نعتیہ غزلوں، آزاد نظموں اور قطعات کے علاوہ پابند اور طویل نظموں کے شاہکار فن پاروں کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر عبدالعزیز کشکولِ آرزو کی شعریت کا حظ یوں اٹھاتے ہیں :
’’کاوشِ نعت میں یہ حسین تجربہ انھیں بلاشبہ اس ندرتِ فن کا اسیر بنا دیتا ہے اور یہ بھی کہ وہ یہ دانستہ نہیں کرتے بلکہ ان سے یہ ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے شاخ پہ پھول کھل اُٹھتے ہیں اور پھولوں سے خوشبو بکھرنے لگتی ہے۔ ‘‘
سلام علیک اکتوبر 2004ء (چھٹا مجموعۂ نعت)
’’سلامٌ علیک‘‘ ریاض کے نعتیہ کلام کا چھٹا مجموعہ:’’ان ملائکہ کے نام، جو درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں لے کر، صبح و شام گنبدِ خضرا کے جوارِ کرم میں اُترتے ہیں اور آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ عطا پر حضوری کی سرشاریوں سے ہم کنار ہونے کا شرفِ عظیم حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘ ریاض کے نزدیک ’’سلامٌ علیک‘‘ اکیسویں صدی کی پہلی طویل نعتیہ نظم ہے جسے اُردو زبان کا ایک طویل نعتیہ منظومہ یاقصیدہ بھی کہہ سکتے ہیں جو چھ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ ریاضؔ نے اس میں ابتداء میں ایک منفرد و یکتا شعر کہنے کی روایت کے تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔ مصرعے میں چشم نم کو ’’فضائے طیبہ‘‘ کی نازکی کا احساس دلایا ہے۔ دوسرے مصرعے میں مدینہ منوّرہ کا تقدس اور درودوں کے آداب سکھائے ہیں۔ قدرت شعری اور رنگِ مدحت کا دلربا انداز! کیا کہنے :
برستی آنکھو! خیال رکھنا بہت ہے نازک فضائے طیبہ
مدینہ آئے تو چپکے چپکے درود پڑھ کر سلام کرنا
جو کام اللہ ربّ العزت جلَّ جلالہٗ کے پاک نام سے یا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے شروع نہیں کیا جائے گا وہ نامکمل اور خیروبرکت سے دور رہے گا۔ ریاضؔ حسین چودھری اس حسین و جمیل کلّیہ سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اپنی ہر کتاب کو حمد و ثنا کے نور سے مزّین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نعتیہ قصیدہ کے پہلے پانچ بند اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے شاہد ہیں۔ ریاض نے بھی قرانِ کریم کے معانی اور مفاہیم کو اپنے پیشِ نظر رکھا ہے۔
قلم سر جھکائے ورق کی جبیں پر
سجائے دیے شب کو قصرِ یقیں پر
حکومت ہے اس کی فلک پر زمیں پر
خدا آپ کا سب سے اعلیٰ و بالا
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک !
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک !
قلم کی نوک، ورق کی جبیں، شب کے چراغ اور یقیں کے قصر یعنی ابتدائی تین مصرعے اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور ربوبیت کے گواہ ہیں جب کہ آخر ی تین مصرعے نغماتِ درود و سلام سے مزین ہیں۔ پہلے پانچ بندوں میں حمد و ثنا کا التزام ہے۔ جب کہ اس نعتیہ قصیدہ کا چھٹا بند تعریف و توصیفِ ثنائے مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کا حُسنِ آغاز ہے۔
تصوّر میں سرکار در پر کھڑا ہوں
سمٹ کر نگاہوں میں بھی آگیا ہوں
حضور آپ کی نعت لکھنے لگا ہوں
عطا کیجیے کوئی حرفِ منزّہ
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک !
سلامٌ علیک، سلامٌ علیک !
شاعر نے تصوّر جما کر درِ سرکار پر رسائی حاصل کی ہے۔ اپنی تمام توانائیوں کو بھی یکجا کرلیا ہے۔ شاعر حضور کی نعت لکھنے کا ملتجی ہو کر حرف منزہ کا متلاشی ہے۔ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کے بعد پھر دوسرا اور تیسرا بند مدح سرکار کے موتی رول رہا ہے۔ شاعر کو نعت کے طفیل جذبات کی شدت اور الفاظ کی ندرت حاصل ہے۔
خلدِ سخن 2009 ء (ساتواں مجموعۂ نعت)
’’خلدِ سخن‘‘ 2009ئ: ’’والدۂ مرحومہ کے نام‘‘ منسوب ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ خُلدِ سخن ہو یا ریاض کے دیگر مجموعہ ہائے نعت، مرکزِ نگاہ اور محورِ محبت صرف اور صرف نبی کریم رئوف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ پاک ہوتی ہے۔ ان کے نعتیہ مجموعوں میں والہانہ وابستگی، بے اختیار خود سپردگی کا اظہار محفل سرور و سرود سجا رہا ہوتا ہے۔ اظہار کی سچائی اور الفاظ کی توانائی کی خیرات لے کر وہ اپنے وجدانِ نعت میں گم ہو جاتے ہیں۔ پھرطویل بحریں ہاتھ باندھے ان کے نوک قلم پہ حضوری مانگ رہی ہوتی ہیں۔ طویل بحر کی طوالت کے باوجود الفاظ کی ندرت اور روانی و سلاست کی مہکار دامن نعت کو عطر بیز کر دیتی ہے۔
غزل کاسہ بکف جنوری 2013ء (آٹھواں مجموعۂ نعت)
’’غزل کاسہ بکف‘‘ ریاضؔ حسین چودھری کا آٹھواں نعتیہ مجموعہ ( 12؍ ربیع الاوّل 1434ھ کی نسبت سے 25 جنوری 2013ء )’’رفیقانِ مدینہ کے نام جن کی حُبِّ رسول سے معمور سنگت نے سوز و گداز کی نئی کیفیات سے ہم کنار کیا۔ ‘‘ اس کتاب پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں میں بشیر حسین ناظمؔ، شیخ عبدالعزیز دباغ، ؔ ریاضؔ حسین چودھری، ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری، ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی، ؔ ڈاکٹر سلیم اخترؔ، احمد ندیمؔ قاسمی، حفیظ تائبؔ اور ڈاکٹر ریاض ؔمجید کے نام شامل ہیں۔
شیخ عبدالعزیز دباغ لکھتے ہیں :
’’ان کا قلم ان کا مصاحب ہے مشیر ہے اور وفا شعار دوست کی طرح ان پر نچھاور ہوتا رہتا ہے، رعائیتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ریاضؔ کے سامنے رکھتا ہے اور وہ ان کو سُرمہ کی طرح چشمِ قلم میں لگا کر اس کی آبِ بصیرت کو تیز تر کر دیتے ہیں۔ ریاض جس لفظ کو اُٹھا کر جس لفظ کے ساتھ چاہیں جوڑ لیں، معنوی حُسن کی سیج سجتی ہی چلی جائے گی۔ ‘‘
طلوعِ فجر جنوری 2014ء (نواں مجموعۂ نعت)
’’طلوعِ فجر‘‘ 12؍ ربیع الاوّل 1435ھ بمطابق جنوری 2014ء : ’’حاجی محمد رفیق الرفاعی کے نام، جن کی انگلی تھام کر میں نے طوافِ کعبہ مکمل کیا۔ ‘‘
ریاضؔ حسین چودھری نے آقائے محتشم و مکرم کے یومِ ولادت کے حوالے سے 500 بنود پر مشتمل یہ طویل نعتیہ نظم کہی ہے۔ ہر بند چھ چھ اشعار کا خلاصہ، ماحصل اور تتمّہ منظوم کیا ہے۔ ریاض نے اس طویل نعتیہ نظم میں بھی اپنی فکر کی جولانی اور اپنی دیرینہ ہنرمندی کے جوہر منظوم کیے ہیں۔ عربی ادب کے بالغ نظر ادیب و نقاد اور ’’برصغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری‘‘کے موضوع پر مقالہ لکھنے والے محقق پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی طلوعِ فجر کے ’’پیش لفظ‘‘ میںلکھتے ہیں :
’’ریاضؔ حسین چودھری ایک کہنہ مشق شاعر ہیں، متعدد مجموعے اُن کی نعت شناسی کا ثبوت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاض حسین چودھری کے شب و روز کا جائزہ ان کی یک رنگی کی شہادت ہے۔ یہ طویل نظم جو نعتیہ ادب میں ممتاز مقام لے گی، شاعرِ حق نما کے فطری میلان کا نتیجہ ہے۔ ‘‘
زاہد بخاری نے اپنے فلیپ میں ریاضؔ حسین چودھری کی دیگر خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔
’’طلوعِ فجر عشق سرکار کی ایک لازوال شعری دستاویز ہے جس کا ایک ایک مصرع محبت رسول کی خوشبوئوں سے مہک رہا ہے۔ شاعر نے کہیں بھی ابلاغ کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ ‘‘
آبروئے ما جنوری 2014ء (دسواں مجموعۂ نعت)
’’آبروئے ما‘‘ (12؍ ربیع الاوّل 1435ھ/جنوری 2014ء ) ’’اپنے پیارے بیٹے محمد حسنین مدثر کے اعزازِ غلامی کے نام‘’ معنون کیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ’’حرفِ آغاز‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ریاضؔ حسین چودھری جو نعت کہتے ہیں اُس میں جذبے کے وفور کے علاوہ فکری عنصر اور معاصر دنیا کے آلام و مسائل پر دردمندی کا وہ احساس بھی شامل ہے جسے جدید نعت کا ایک امتیازی وصف کہا جاسکتاہے۔ ‘‘
سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی نے بھی اس کتاب کا فلیپ خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں :
’’ان کے کلام میں بے کراں وارفتگی، والہانہ پن، سرشاری، تازہ کاری اور گہری ارادت کا سمندر موجزن ہے اور ان کا قومی و ملّی احساسات سے لے کر انسانی اور آفاقی تصورات اور نظریات پیش کرنے کا سلیقہ بھی خاصا مختلف ہے۔ ‘‘
زودگوئی کے باوجودریاضؔ چودھری کا اسلوب یکسانیت سے پاک ہوتا ہے۔ اس میںایک نیاپن اور طرزِ بیان کا ایک نیا احساس کارفرما ہے۔ ان کی شاعری میں عصر حاضر کے سیاسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کا انتشار اور زبوں حالی کا ذکر بہت دردمندی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی فریاد ایک فرد کی آواز نہیں بلکہ بارگاہِ رسالت میں پوری اُمت کا استغاثہ ہے۔
وہ اپنی ہر کتاب میں اپنی تمام تر شاعری سے پہلے ایک مثالی اور اچھوتا سا شعر ضرور رقم کرتے ہیں۔ اس شعر کی معنوی تفہیم کسی بھی تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ یہ شعر زبانِ حال سے خود اپنی وضاحت پیش کر رہا ہے ؎
اگرچہ ایک بھی سکہ نہیں ہے جیب و داماں میں
مگر طیبہ میں زنجیریں غلامی کی خریدوں گا
زم زمِ عشق جنوری 2015ء (گیارہواں مجموعۂ نعت)
’’زم زمِ عشق‘‘( 12؍ ربیع الاوّل 1436ھ مطابق 4؍جنوری 2015ء )’’یارِ غار سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام‘‘ سے منسوب ہے۔ زم زمِ عشق سے جام پرجام پینے والوں میں ڈاکٹر عزیز اَحسن، شیخ عبدالعزیز دباغ، پروفیسر محمد ریاض احمد شیخ اور راجا رشید محمود شامل ہیں۔ گیارہویں نعتیہ مجموعہ میں کلام کی ترتیب اس انداز سے رکھی گئی ہے۔ حمدِ ربِّ کائنات، حمد و نعت، سلام، سہ نعتیہ، دو نعتیہ، ثنائے خواجہ، قطعات، ثلاثی اور فردیات شامل ہیں۔ فکرِ ریاض نے اس مجموعے میں بھی اپنی انفرادیت کے دیپ جلائے ہیں۔ جدّت طرازی اور معنی آفرینی کلام کی خصوصیات کو دوآتشہ کر رہی ہے۔
شیخ عبدالعزیز دباغ کی خوبصورت اور دل نشیں رائے کا یہ انداز دیکھیے۔
’’جب آپ ریاضؔ کے لفظوں میں جھانکیں گے تو تجلّیاتِ حضوری آپ کے قلب و نگاہ کو لذّتِ نظارہ سے سرشار کرتی نظر آئیں گی‘‘۔
زم زمِ عشق میںریاضؔ حسین چودھری کے ذوقِ نعت کا رنگ ملاحظہ ہو :
چراغِ نعت جلتے ہیں مرے چھوٹے سے کمرے میں
مرے آنگن کی چڑیاں بھی درودِ پاک پڑھتی ہیں
ایک دوسرے شعر میں وہ اپنی قلبی کیفیات کی عکاسی یوں کرتے ہیں ؎
شہرِ طیبہ کی ہوائوں سے ہے میری دوستی
جو مدینے کا ہے موسم وہ مرے اندر کا ہے
تحدیثِ نعمت دسمبر 2015ء (بارہواں مجموعۂ نعت)
’’تحدیثِ نعمت‘‘ ( 12؍ ربیع الاوّل 1437ء مطابق 24؍ دسمبر 2015ئ) ’’مرادِ رسول (ﷺ) سیّدنا حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے نام‘‘ سے منسوب ہے۔ اس کتاب پر صرف ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کی رائے ’’مدحت نگارِ رسول کا ارمغانِ عجزو نیاز‘‘ کے عنوان سے موجود ہے جب کہ گزشتہ احباب کی مختصر آراء بھی فلیپ کی زینت ہیں۔ ڈاکٹر تنولی لکھتے ہیں :
’’ریاض حسین چودھری کی زندگی میں جہاں عشقِ رسول کی تپش ہے وہاں بارگاہِ رسالت کے ادب نے عجز کا رنگ بھی پیدا کردیا ہے۔ اطاعتِ نبوی کے جذبے نے شاعر کو جو اُجالا دیا وہ اس کے چہرے کا نور بن گیا۔ ‘‘
ایک خوبصورت شعر دینے کی روایت بھی اس کتاب میں موجود ہے۔ شاعرِ خوش نوا کا ہر لمحہ سرکارِ دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت سے مہکتا نظر آتا ہے۔ امنِ عالم کے لیے جو حقیقی نصاب کی تلمیح آخری خطبہ سے منسوب کی ہے اس کا تو جواب ہی نہیں ہے۔
مجھ سے پوچھا تھا کسی نے امنِ عالم کا نصاب
آخری خطبہ قلم سے خود بخود لکھا گیا
شاعری کے نقطۂ آغاز سے پہلے ریاض حسین چودھری کا یہ شعر بھی دلوں کے تاروں کو چھیڑ رہا ہے۔ شاعر نے نعت کی قدامت کو عالمِ ارواح سے پیوست کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے جس سے سرِمو انکار ممکن نہیں۔ یہاں قلم کا رقص مزہ دوبالا کر رہا ہے۔
عالمِ ارواح میں بھی رقص کرتا تھا قلم
یہ وفورِ نعت میری روح کے اندر کا ہے
دبستانِ نو 2017ء (تیرہواں مجموعۂ حمد و نعت)
’’دبستانِ نو‘‘ ’’جدید لہجے کے اُن نعت نگاروں کے نام جن کے قلم کی ہر جنبش نئے آفاق کی تسخیر کا مژدہ سنا کر ہر لمحہ محرابِ عشق میں محوِ درود رہتی ہے‘‘۔
کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر ریاض مجید نے تحریر کیا ہے اور تفصیل سے ریاض حسین چودھری کے شعری محاسن کا جائزہ لیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں :
’’چودھری صاحب کی نعت گوئی کا بڑا حصہ ہم سب نعت کے شاعروں کی طرح غزل کی صنف میں کہی گئی نعتوں پر مشتمل ہے۔ غزل کی ترتیب اور مقبولیت کے سبب ہر دورِ نعت میں اس صنف کا اتنی محبت، شدّت اور کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ کسی دوسری صنف شاعری میں اس کا دسواں حصہ بلکہ عشر عشیر بھی نہیں برتا گیا۔ غزل کے علاوہ خصوصاً معّرا نظم میں ایسا ضخیم مجموعہ معاصر نعتیہ شاعری میں پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ اس سے اردو نعت کے ہیٔتی اور صنفی آفاق وسیع ہوئے ہیں۔ ‘‘
شیخ عبدالعزیز دباغ لکھتے ہیں :
’’ریاض حسین چودھری کا تازہ نعتیہ مجموعہ ’’دبستانِ نو‘‘ نعتِ معرّیٰ کا ایسا فن پارہ ہے جس کا تجربہ نعتیہ ادب میں ابھی تک کوئی نہیں کر سکا۔ پیرایہ اظہار ریاض کے ہاں وہ چار گرہ کپڑا ہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا ہے۔ ریاض کے اس مجموعۂ نعت میں عوامل نعت نگاری کے تنوع اوروفور کی بدولت ان کے عملِ تخلیق کا دریا حسنِ شعریت کی جملہ رعنائیوں کے ساتھ اچھل کر سمندر ہو گیا ہے۔ جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاض کا شعورِ نعت آج سے ایک صدی بعد کی ہیئتِ نعت کا عرفان حاصل کر چکا ہے۔ اس طرح دبستانِ نو اگلی صدی کی نعت کی ہیئتِ ترکیبی کے خد و خال لئے ہوئے ہے۔ ھیئتِ نعت کی اس صدسالہ پیش بینی کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ امت پر انتشاروافتراق کی عتاب ناکیاں جو آج ہیں کل نہ تھیں جبکہ آنے والے وقت میں طوفانِ بلا کی بے کرانیاں حدِ ادراک سے ماورا نظر آتی ہیں۔ اس سے شعورِ نعت اور اس کے وسائلِ اظہار کی پہنایاں بھی اسی قدر تصور و تخیل سے دور آگے نکل گئی ہیں۔ لمبے اور کٹھن سفر میںاضافی زادِ راہ گرا دیا جاتا ہے، ورنہ سفر کی رفتار مدھم اور منزل دور ہو جاتی ہے۔ معرّیٰ بھی ردیف و قافیہ ار دیگر شعری پابندیوں کو گرانے کا نام ہے۔ مگر ریاض نے ہمیںوہ ’’دبستانِ نو‘‘ دیا ہے جس میں معرّیٰ ہی سہی رعنائی اظہار کا اھتمام ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح ان کی ’’دبستانِ نو‘‘ اس صدی کی آخری دہائی کی خوبصورت نعت ہے جو کل کے نعت گو کا فنی سرمایہ ہے۔ ‘‘
لامحدود 2017ء (14 واں مجموعۂ حمد ومناجات)
یہ مجموعۂ حمد و مناجات ذوالنورین، پیکرِ شرم و حیا سیدنا حضرت عثمانِ غنیؓ کے نام منسوب کرتے ہوئے ربِ کریم سے صلہ مانگتے ہیں کہ’’ اے خدا! روزِ محشر مجھے میرے آقاؐ کے سامنے شرمندہ نہ ہونے دینا، مَیں اپنے شفیق آقاؐ کا سامنا نہ کر پاؤں گا۔ ‘‘ شیخ عبدالعزیز دباغ ـ’’لامحدود کی رمزِ اظہار‘‘ کے عنوان سے تعارف میں لکھتے ہیں :
’’ ریاض کا نفسِ مدرّک تو ’’عبدہٗ‘‘کے شعورِ ذات سے منورہے۔ لا محدود کے سامنے بندگی کی قیود میں رہتے ہوئے، خشوع و خضوع میں لپٹے ہوئے، ’’کشکولِ آرزو‘‘ ہاتھ میں لئے وہ ایک صاحبِ نطق سائل ہیں۔ چنانچہ ’’لامحدود‘‘ میں ان کا حمدیہ کلام ایک سائل کا لب و لہجہ لئے ہوئے ہے۔ جو قافیے اور ردیفیں وہ یہاں استعمال کر رہے ہیں وہ پہلے نعتیہ کلام کے تیرہ مجموعوں میں کم ملتی ہیں۔ وہاں وہ ثنا گو ہیں جبکہ یہاں وہ مالک کی تسبیح و توصیف کرتے ایک ’’مسکین منگتا‘‘ بن کر التجائیں کر رہے ہیں۔ ‘‘
کائنات محوِ درود ہے 2017 ء (15 واں مجموعۂ نعت)
ریاض اپنے اس مجموعۂ نعت کو شیر خدا سیدنا حضرت علی شیر خدا کرم اللہ وجہ کے نام
منسوب کرتے ہوئے رب کریم سے حبیبِ خدا کی نعت کا صلہ مانگتے ہوئے التجا کرتے ہیں: ’’خطۂ
دیدہ و دل، پاکستان، عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہے۔ غلامانِ رسولؐ کے ایٹمی اثاثہ
جات کی حفاظت فرما؛ ہم سب کو فصیل ارضِ وطن پر جاگتے رہنے کا شعور عطا کر‘‘۔
جناب ڈاکٹر شہزاد احمدنعت نگاری کے حوالے سے آپ کی خدمات کا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے
لکھتے ہیں:
’’جدید اردو نعت کا جب بھی تذکرہ ہو گا، ریاض حسین چودھری کے نام کو بھی اولیت حاصل رہے گی۔ موصوف کا شمار عہدِ جدید کے معروف اور قابلِ ذکر نعت نگاروں میں ہوتا ہے، ان کی نعتیہ شاعری کا ورق ورق اکیسویں صدی کی جدید نعت کے پس منظر اور پیش منظر کو واضح کر رہا ہے۔ ان کے ہاں تخلیقی توانائیوں میں روایت کا تسلسل بھی کارفرما ہے اور ان کی طاقِ جاں میں شہرِ مدحت کے ابدی و جدید چراغ روشن ہیں۔ ‘‘
ریاض کی نعت نگاری پر اساتذۂ فن کی آراء
حفیظ تائب
’’غزل کاسہ بکف ‘‘کاسرورق لکھتے ہوئے حفیظ تائب رقمطرازہیں :
’’ریاض حسین چودھری بھی کئی دوسرے شاعروں کی طرح غزل سے نعت کی دنیا میں آئے۔ میں نے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ضوفشاں دیکھی ہے کہ غزل سے نعت کی طرف آنے والے کا رنگ ہی جدا ہوتا ہے۔ لوگوں نے انہیں الگ تھلگ خانوں میں بانٹ رکھا ہے حالانکہ غزل تو پیرایۂ سخن ہے جس میں دیگر مضامینِ رنگ و بو کی طرح نعت کی لامحدود وسعتیں بھی سمٹ آتی ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ غزل جب باوضو ہوجاتی ہے تو جان نعت کہلاتی ہے۔ مترنم بحریں، حسنِ گویائی بخشتے ہوئے مصرعے، رعنائی تغزل لٹاتے ہوئے اشعار، حسیں تر قوافی، طویل اور مختصر بحروں کا انتخاب کہیں ایجاز و اختصار کہیں بلاغت کی جہاں افروزیاں، مضمون آفرینی کی رفعتیں، سمندر کو کوزے میں سمیٹتے ہوئے مضامین، ندرتِ خیال، جدتِ زبان و بیان، غرض انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کی غزل گوئی نے گلستانِ نعت کی نکہتوں کا لبادہ اوڑھ کر دامانِ توصیفِ رسول ﷺ کو زر نگار بنانے کے لیے اپنے شب و روز کی تمام تجلیات فکر نذر کردی ہیں۔ ‘‘
ریاض مجید
آپ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا یوں اعتراف کرتے ہیں :
’’بحیثیت مجموعی ریاض حسین چودھری کی نعت حضور نبی اکرم ﷺ سے اپنی ارادت مندی کے سبب ایک خاص تاثیر کی حامل ہے۔ اس تاثیر کا سبب ان کی وہ تخلیقی صلاحیتیں ہیں جو انہوں نے نعت گوئی کے لئے وقف کر رکھی ہیں۔ ان کی نعت گوئی کا رجحان اور اسلوب رسمی عقیدت نگاری کی بجائے خالص شعری اور تخلیقی انداز کا حامل ہے اس کی وجہ فن شاعری سے ان کی دیرینہ اور مستحکم وابستگی ہے، جذبات کا بہاؤ اور روانی ان کی نعت گوئی کا خاص وصف ہے جس کی وجہ سے ان کے کلام میں اخلاص اور تاثیر کے اوصاف نمایاں ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر سلیم اختر
ڈاکٹر سلیم اختر ’’متاعِ قلم‘‘ پر اظہارِخیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ انہوں نے تو نعت گوئی داخلی کیفیات کے زیر اثر اختیار کی ہے۔ اسی لیے وہ مدحتِ رسول ﷺ کو مقصودِ فن اور ثنائے رسولؐ ہی کو قبلۂ فن جانتے ہیں۔ ریاض حسین چودھری دنیا داری کے تقاضوں والے دنیا دار شاعر نہیں ہیں اسی لیے انہوں نے خود کو صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر رکھا ہے، وہ نعت کو توشۂ آخرت تسلیم کرتے ہیں جبھی تو ایسا شعر کہہ سکے
ریاض اپنی لحد میں نعت کے روشن دیے رکھنا
چمک اٹھے گی قسمت شامِ رخصت کے دریچوں کی
متعدد نعتیہ مجموعوں کے خالق ریاض حسین چودھری اپنے دوسرے نعتیہ مجموعے ’’رزقِ ثنا‘‘ پر صدارتی ایوارڈ 2000ء اور حکومتِ پنجاب کی طرف سے سیرت ایوارڈ 2000ء بھی حاصل کرچکے ہیں، تازہ مجموعہ ’’متاع قلم‘‘ ان کی نعت گوئی کے سفر میں سنگِ میل قرار پائے گا۔ عشقِ رسول ؐ نے تخلیق کا سبز جامہ پہنا تو ریاض حسین چودھری نے مہکتے الفاظ سے گل کاری کی، اس تمنا کے ساتھ
اے ذوقِ نعت آج بھی اشکوں میں ڈھل ذرا
قندیل بن کے دل کے جھروکوں میں جل ذرا
ریاض کی نعتوں میں عشقِ رسولؐ نے جذباتیت کا اسلوب پیدا نہیں کیا جو بعض اوقات نعت میں غلو پیدا کردیتا ہے اس ضمن میں انہوں نے کیا اچھی بات کی ہے۔
مدحت نگار اوّل و آخر ہے اس کی ذات
مفہوم آیتوں کا بھی اے دیدہ ور سمجھ ‘‘
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں :
’’زرِ معتبر‘‘، ’’رزقِ ثنائ‘‘ (صدارتی و صوبائی ایوارڈ یافتہ)، ’’تمنائے حضوری‘‘ اور ’’متاعِ قلم‘‘ کے بعد ’’کشکولِ آرزو‘‘ ریاض حسین چودھری کا پانچواں نعتیہ مجموعہ ہے۔ نعت گوئی کے حوالے سے میں نے ریاض حسین چودھری کے دل نشیں اسلوب سے گہرا اثر لیا ہے اور اس اثر کے تحت وجدانی طور پر جو کلماتِ نقد سامنے آگئے ہیں انہیں سپردِ قلم کر رہا ہوں۔
ریاض حسین چودھری کو شرفِ نعت گوئی منجانب اللہ ملا ہے، یہ عطیۂ خداوندی اور توفیق
الٰہی ہے، کسب و ریاضت سے کیا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، مگر شرفِ نعت گوئی نہیں، یہ صرف
اور صرف حضور اکرم ﷺ سے والہانہ اور مجذوبانہ عشق کرنے والوں کو ملتا ہے۔ یہ انہیں
وافر مقدار میں میسر ہے اور اس دولت بیدار پر ریاض حسین چودھری جس قدر ناز کریں کم
ہے۔ وجدان و عشق کی کار کشائی …شعر گوئی… خصوصاً نعت گوئی کے باب میں مسلم ہے اور ریاض
کے ہاں نعت گوئی کا یہی وصفِ جمیل دامنِ دل کو کھینچتا ہے۔
ریاض کے موضوع، خیال اور اسلوب سب کے سب دلکش و روح پروَر ہیں، خاص کر ان کی نعتیہ
منظومات قلب و روح کے ساتھ ذہن کو بھی خوشگوار حیرت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ اللہ رب العزت
نے انہیں موضوع نعت کو سماجی و سیاسی اور تاریخی و تمدنی حالات سے منسلک کر کے قومی
و بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کا غیر معمولی ملکہ عطا فرمایا ہے۔ اس
نعمتِ وہبی پر میں شاعرِ ’’کشکولِ آرزو‘‘ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ‘‘
ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفی
آپ لکھتے ہیں :
’’مجھے تو ریاض حسین چودھری کا پورا وجود مصروفِ نعت گوئی نظر آتا ہے۔ اُن کا تخیل اور مشاہدہ ہر جلوۂ رنگ و نور میں نبی اکرم ﷺ کے خدوخال کو تلاش کرتا ہے۔ ان کے ہاں الفاظ اور ترکیبیں (پازیبِ زر، ارضِ شعور، ذرۂ ارضِ بدن) رقص کرتی اور دف بجاتی نظر آتی ہیں۔ ان کا شعورِ نغمہ ایک غیر اَرضی اِستعارہ بن گیا ہے۔
ریاض حسین چودھری عہدِ حاضر کے منظر نامے اور خرابے میں اپنی ملت کا اِستغاثہ کس آبلہ صفتی کے ساتھ حضورِ سرورِ کون و مکاں ﷺ پیش کر رہے ہیں۔ اقبال نے تو طرابلس کے شہیدوں کا لہو اپنے جام فن میں اپنے آقا ﷺ کے حضور پیش کیا تھا، اور ریاض حسین چودھری تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم۔ چنار کی آگ، لہو لہو ارضِ اقصیٰ، سربرہنہ اُمت کی بیٹیاں، پیکرِ ایشیا کے قلب… افغانستان کے شعلے… ریاض کی نعت سرورِ دل و جاں ﷺ کے نقوش کی تابانیوں کے ساتھ ان تمام حقائق کا آئینہ خانہ بھی ہے۔ اُس کی نعت حدیثِ دل بھی ہے، مرثیۂ ملت بھی اور مجاہد کی یلغار بھی، وہ بڑے اعتماد کے ساتھ دھیمے لہجہ میں سرکار ﷺ سے کہتا ہے :
حضور! جبرِ مسلسل کے باجود اب تک
گرا نہیں ہے غلاموں کے ہاتھ سے پرچم
اور اِن شاء اللہ! ربِ محمد ﷺ اکیسویں صدی عیسوی کو اسلام کی صدی بنا دے گا اور آنے والی صدیوں کو بھی سبز رنگ عطا کرے گا… اور اس میں دوسرے عناصر کے ساتھ ریاض حسین چودھری کی آواز کا بھی دخل ……‘‘
زاہد بخاری
طلوع فجر کے بارے زاہد بخاری لکھتے ہیں :
ریاض حسین چودھری کا شمار جدید اُردو نعت کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے۔ نصف صدی کے تخلیقی سفر کے بعد آپ کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں۔ ’’زرِ معتبر‘‘ سے ’’طلوعِ فجر‘‘ تک کا سفر دل نواز مدحت رسولؐ کی خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔ منفرد اسلوب ان کی تخلیقی پہچان کی بنیاد بنا ہے۔ حرف پذیرائی انہی دلکش موسموں کی عطا ہے۔ ہر لمحہ در حضور ﷺ پر عالم وجد میں گزرتا ہے۔ تصور مدینے کی معطر گلیوں میں نقوشِ پاکی تلاش میں رہتا ہے … اور یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
وجہِ تخلیق کائنات ؐ کا دنیا میں ظہورِ خالق کون و مکاں کا اپنی مخلوقات پر احسان عظیم ہے۔ حضورﷺ کو تمام عالمین کے لیے رحمت بنایا گیا ہے۔ آپ ؐ کی آمد پر عرش و فرش برسات نور میں نہا گئے۔ گلشن ہستی کی ڈالی ڈالی خوشی سے جھوم اٹھی اور موجودات کا ذرہ ذرہ وجد آفریں کیفیت سے سرشار ہوگیا۔ نبی آخر الزماں کے میلاد کی مناسبت سے بہت سے شعرا نے آپ ؐ کی بارگاہِ اقدس میں عقیدت و محبت اور درود و سلام کے نذرانے پیش کیے ہیں جن میں جناب ریاض حسین چودھری کو خاص مقام حاصل ہے۔ انہوں نے میلاد حضور ؐ کے سلسلہ میں اپنی طویل نظم ’’طلوعِ فجر‘‘ کے نام سے قلمبند کر کے بے مثال و لازوال کام کیا ہے جس کا صلہ انہیں بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے ضرور ملے گا۔ اس مجموعہ کلام میں دلی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ ترکیب لفظی، فصاحت و بلاغت اور خیالات کی تازگی نے حسن شعری کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔
’’طلوعِ فجر‘‘ ریاض حسین چودھری کا 9 واں مجموعہ نعت ہے جس کا موضوع 12 ربیع الاوّل کی صحیح سعادت ہے۔ ولادت پاک کے حوالے سے سیرت مطہرہ کی دل آویزیوں کا بیان ہے۔ ریاض نے 500 بنود پر مشتمل اس طویل نظم کے لیے نظم معریٰ کا انتخاب کیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اکیسویں صدی میں انہوں نے نطم معریٰ کو دوبارہ زندہ کیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ نظم کے ہر بند میں 12 ربیع الاوّل کی مناسبت سے 12 مصرعے ہیں۔ ہر بند کا آغاز اس مصرع سے ہوتا ہے :
’’افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ ‘‘
کون رسولؐ؟ آقائے مکرم ﷺ کی سیرت مقدسہ سے روشنی کشید کی گئی ہے۔ ریاض نے نظم معریٰ کی تکنیک میں تھوڑی سی تبدیلی کی ہے۔ یعنی آخری دو مصرعون کو ہم قافیہ اور ہم ردیف بنا کر انہیں ایک مکمل شعر کی صورت دی ہے اور کوشش کی ہے کہ بند کے نفس مضمون کو اس شعر میں سمیٹ لیا جائے۔
’’طلوع فجر‘‘ عشق سرکار ؐ کی ایک لازوال شعری دستاویز ہے جس کا ایک ایک مصرع محبت رسول ﷺ کی خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔ شاعر نے کہیں بھی ابلاغ کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اللہ کرے ان کا خوبصورت شعری سفر تا دیر جاری و ساری رہے اور ان کے گلہائے سخن جہان شعر و ادب کو مہکاتے رہیں۔ آمین ‘‘
احمد ندیم قاسمی
’’ریاض چودھری اس دور کا ایک بھرپور نعت نگار ہے ’’بھرپور‘‘ کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے اس نعت نگار کے کلام میں محبت کی سرشاری بھی ہے لفظ اور لہجے کی موسیقی بھی ہے اور پھر وہ حدِ ادب بھی ہے جو نعت نگاری کی اوّلین اور بنیادی شرط ہے۔ ‘‘
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی
نعت ایک توفیق ہے جس کو بھی مل گئی محترم قرار پایا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ کسی کو یہ توفیق جزواً حاصل ہوئی کہ وہ دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ نعت کا حق بھی ادا کرتا رہا۔ تو کسی کو اس توفیق نے کلیۃً اپنے دامنِ کرم میںلے لیا اور وہ سراپا مداح رسول ﷺ بن گیا۔ ایسے خوش قسمت شاعر ہر لمحہ نعت کے ذوق سے مسرور رہتے ہیں، اُن کے افکار پر نعت یوں چھا جاتی ہے کہ اُن کے شعور کا ہر گوشہ نعت گزار ہو جاتا ہے۔ کس قدر خوش قسمت ہے وہ انسان جو ہر وقت حسنِ تمام کے حصار میں رہے! ایسے شاعر تقدیس کا نشان اور خرد افروزی کا حوالہ ہوتے ہیں۔ مقامِ مسرت ہے کہ ہمارا ممدوح شاعر جسے لوگ ریاض حسین چودھری کہتے ہیں مگر میں تو اُنہیں ’’نقشِ حسان‘‘ کہنا پسند کرتا ہوں، ہر لمحہ حاضر دربار رہتا ہے۔ ہیت کوئی بھی ہو، بحر کیسی بھی ہو، ردیف و قافیہ کسی قدر مختلف بھی ہو ہمارا شاعر ایک ہی خیال کا اسیر رہتا ہے کہ اُس کے کلمات، تراکیب اور نظمِ شعر کا ہررُخ غلامی کی سند پائے۔ یہ خواہش صرف ذات کی حد تک نہیں ہے، ذات کے ہر حوالے کے بارے میں بھی ہے۔
صد شکر میرا سارا قبیلہ غلام ہے
میری ہے اُنؐ کی سایہ رحمت میں سلطنت
یہ سایۂ رحمت جو سحرِ نور بن کر شاعر کے موجِِ خیال پر محیط ہے، ایک دو برس کی بات نہیں اور نہ ہی یہ شعورِ زندگی کے ساتھ پروان چڑھا ہے بلکہ یہ تو شاعر کے وجود کا جزوِ لازم ہے جو انہیں فکر و خیال کے حصار میں لیے ہوئے ہے۔
تاریخِ کائنات کی روشن تریں سحر
کب سے محیط ہے مری موجِ خیال پر
یہ یقین اس قدر پختہ ہے کہ ہر شعوری کاوش جو اس حقیقت سے مستنیر نہیں ہے حرفِ غلط ہے۔ شاعر کا یہ شعور اس قدر وجد آفریں ہے کہ کسی اور دانش و عقل کا وہاں گزر نہیں۔ اس لیے شاعر پوری شعوری قوتوں کے ساتھ اعلان کرتا ہے۔
ہر فلسفہ غلط ہے جہانِ شعور کا
اک معتبر فقط ہے حوالہ حضورؐ کا
یہی وجہ ہے کہ ریاض حسین چودھری بہر رنگ اپنی غلامی پر نازاں ہے اور اُس نے اپنی زندگی کے ہر رُخ کو وصفِ رسالت کے گداز میں ڈھال لیا ہے۔ اُس کا یقین بھی یہی ہے، اُس کا ارادہ بھی یہی ہے اور اُس کی خواہش بھی یہی ہے کہ زندگی کا کوئی لمحہ مدحت سے خالی نہ ہو۔ ہاں یہ تمنا بھی قوی ہے کہ اُس کی مدحت سرائی قبولیت کا شرف پالے، تمنا اور یقین کا یہ حسین ربط ریاض حسین چودھری کی نعت نگاری کا وہ حسین سنگم ہے جو ایک با وفا مدح نگار کی خواہش کی معراج ہے۔
آقاؐ مرے قلم کی سلامی کریں قبول
لوحِ ادب پہ حرفِ غلامی کریں قبول
ریاض کے غیر مطبوعہ کلام کے دس مجموعے
اساتذہ مذکور کے علاوہ بھی ریاض حسین چودھری کے فن نعت نگاری پر سب بڑے اساتذہ نے لکھا ہے اور ان کے کلام کے محاسن کی دل کھول داد دی ہے۔ میری ملاقات ریاض سے دسمبر 1999 میں ہوئی جب وہ ایکسیڈنٹ کی چوٹوں سے صحت یاب ہو کر فرید ملت ریسرچ سنٹر میں واپس آئے۔ میں اس وقت ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ذمہ داری نبھانے لگا تھا۔ پہلی ملاقات میں ہی میں ریاض کی شخصیت میں کھو گیا۔ ایسے شفاف انسان کو زندگی میں پہلی بار ملا تھا۔ میں غزل لکھتا تھا مگر نعت لکھنے کا یارا نہ تھا۔ سوچا کرتا کہ میں کہاں اور نعت کہاں۔ مگر ریاض کی صحبت نے مہمیز لگائی اور پہلی نعت لکھی جس کا مقطع ہے :
ضیاعِ عمر کے گو مرتکب ہوئے ہو عزیز
درِ حبیب سے لے لو حیات نو اب بھی
اور پھر وہ حیات نو مجھے عطا ہو گئی۔ ریاض سے محبت کا امتحان اس وقت آیا جب وہ اپنے صحت کے مسائل کے ہاتھوں ریسرچ انسٹیٹیوٹ چھوڑ کر سیالکوٹ چلے گئے۔ میں اکثر ان سے ملنے سیالکوٹ چلا جاتا۔ میں نے دیکھا کہ ریاض شب و روز نعت لکھ رہے ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے مجموعہ ہائے نعت کی تعداد حد سے گذرنے لگی۔ بھلا اس کی بھی کیا حد ہو سکتی تھی! مقصد یہ کہ ناقابلِ یقین رفتار، معیار اور فن نعت نگاری میں نت نئے تجربات جن کا تعلق ہیئت سے تھا اور فکر و نظر سے بھی۔
یہ 2012 کی بات ہے، عید قربان کے موقع پرمیں ان سے ملنے سیالکوٹ گیا تو مجھے پریشان دکھائی دیئے۔ کہنے لگے ہمارے ہاں نظام اشاعت تو ہے نہیں اور پبلشرز ایک کتاب چھاپنے میں دو یا تین سال لگا دیتے ہیں۔ سوچتا ہوں اتنا کلام لکھا ہے بس یوں ہی پڑا رہ جائے گا۔ کیا بنے گا؟ میں نے پوچھا کیا کوئی کتاب اس قابل ہے جو میں اسی وقت پرنٹینگ کے لئے ساتھ لے جاؤں تو ’’غزل کاسہ بکف‘‘ منتخب ہوئی جسے میں نے ایک ماہ میں مطبوعہ حالت میں ریاض حسین چودھری کی خدمت میں پیش کردیا۔ اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس سے پہلے ان کے آٹھ مجموعے چھپ چکے تھے اور 2016 تک ان کی تعداد 13 ہو گئی۔ 2017 میں’’ لامحدود‘‘ اور ’’کائنات محوِ درود ہے‘‘ دو مجموعے یکے بعد دیگرے اس طرح طبع ہوئے کہ ریاض اس ناچیز کو زور دے کر فرماتے رہے کہ یہ دو مجموعے چھاپنے میں جلدی کریں۔ دراصل وہ اپنے سفرِ آخرت کے بارے میں کچھ آگاہ تھے اور چاہتے تھے کہ یہ دو مجموعے ان کی زندگی میں چھپ جائیں۔ دونوں مجموعے پرنٹنگ کے مراحل میں تھے کہ آپ 6 اگست 2017 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
مجھے عموماً کہا کرتے کہ کوئی دس مجموعے ابھی باقی ہیں جب کہ میرا وقت قریب آ گیا ہے اس لئے مجھ سے وعدہ کریں کہ میرے بعد یہ مجموعہ ہائے نعت آپ شائع کریں گے میں انہیں ہر بار تسلی دیتا کہ بشرط زندگی میں یہ وعدہ پورا کروں گا۔ یہ وعدہ لینے کا اصرار فروری سے اپریل 2017 تک بار بار کرتے رہے اور جب میں نے ’’لامحدود‘‘ اور’’ کائنات محو درود ہے‘‘ پرنٹنگ کے لئے پریس بھیج دیں تو مطمئن ہو گئے۔
میں نے اکتوبر، نومبر2017 میں روضہ رسول ﷺ پر حاضری کے دوران قدمَین مبارک میں اشکہائے حضوری کے ساتھ التجا کی تھی کہ یا رسول اللہ! غلام اس وعدے کی مکمل پاسداری کی توفیق کا سوال لے کر حاضر ہوا ہے۔ نظر کرم کی التجا ہے۔ الحمد للہ! نہ صرف www.riaznaat.com ویب سائٹ کی تکمیل ہو گئی ہے بلکہ ریاض مرحوم کے آٹھ غیرمطبوعہ مجموعہ ہائے کلام کی اشاعت کا کام بھی مکمل ہو گیا ہے۔ جب کہ جلد ہی riaznaat کی Android App بھی آپ کے موبائلز کی زینت بننے والی ہے۔
میں آپ کی دعا کا طالب ہوں کہ یہ حقیر غلامانہ کاوش بارگاہِ رسالت ﷺ میں قبول ہو جائے، ویب سائٹ کی وساطت سے ریاض کی نعت کا ایک ایک حرف دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جائے اور درِ حبیب ﷺ سے غلام کو رضائے نبی ﷺ کا تحفہ عطا ہو جائے۔ آمین بجاہ سیّد المرسلین!