میز پر کلکِ ثنا پھول سجانے نکلے- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
مشعلِ عشقِ نبیؐ گھر میں جلانے نکلے
میز پر، کلکِ ثنا، پھول سجانے نکلے
قریۂ امنِ دو عالم میں پرندے زخمی
زخم آقائے مدینہ کو دکھانے نکلے
میری تہذیب کے مکتب میں فقیہانِ قلم
کاغذی پھول سرِ شاخ سجانے نکلے
نیند میں خوب مہکتے ہیں درودوں کے گلاب
میرے بچوں کے نئے خواب سہانے نکلے
جن کو دعویٰ ہے نئے دور کے خالق ہم ہیں
میرے ماضی کے چراغوں کو چرانے نکلے
ہر گلی اور محلے میں چراغاں کر کے
پھول سے بچے ہیں میلاد منانے نکلے
خاکِ دہلیزِ پیمبرؐ سے ستارے چن کر
ایک اک لمحے کو ہم چاند بنانے نکلے
میرے آقاؐ، مرے گلشن کی عجب ہیں رسمیں
بوڑھے اشجار پرندوں کو جگانے نکلے
حشر کے روز خیابانِ پیمبرؐ میں ریاضؔ
شہرِ طیبہ کے وہی یار پرانے نکلے
ہم کہ سلطانِ مدینہ کی رعایا ہیں ریاضؔ
غیر ممکن ہے ہمیں دھوپ ڈرانے نکلے
ہم گنہ گار، خطا کار مدینے میں ریاضؔ
چند آنسو درِ آقاؐ پہ بہانے نکلے
ایسے بدبخت بھی دیکھے ہیں فلک نے جو ریاضؔ
معبدِ عشق کے مینار گرانے نکلے