قفس میں ہر پرندے پر ہزاروں بال و پر برسے- لامحدود (2017)
خدائے مہرباں، کب تک مری یہ چشمِ تر برسے
جلی سی کھیتیوں پر ا برِ رحمت ٹوٹ کر برسے
لبِ تشنہ پہ پانی کی خنک بوندوں کی رم جھم ہو
طلب کے ریگ زاروں پر گھنی چھائوں کا زر برسے
ورق پر بے یقینی کا جلا موسم رہے کب تک
قلم کے لالہ زاروں پر معانی کا گہر برسے
تری رحمت کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں مولا!
تری رحمت کے بادل جھوم کر شام و سحر برسے
مرے بچّے مصلّے پر کھڑے ہیں، یا خدا، کب سے
اندھیری شب کی دیواروں پہ بھی شمس و قمر برسے
ترے فضل و کرم کی بھی نہیں ہے حد کوئی یارب!
قفس میں ہر پرندے پر ہزاروں بال و پر برسے
مجھے محنت کی عظمت کا یہ کب احساس تھا پہلے
مرے بھی دست و بازو پر زرِ علم و ہنر برسے
ترے گھر کی زیارت کا ارادہ کر رہا ہوں مَیں
مرے گھر کے بھی آنگن میں یہ سامانِ سفر برسے
زمیں اپنے خزانوں کو اگل دے تیرے بندوں پر
مجھے معلوم ہے صدیوں یہاں برگ و ثمر برسے
نوازا ہے مجھے تُو نے بہت آسودہ لمحوں سے
پکارا ہے تجھے جب بھی چراغِ رہگذر برسے