ریاض کی نعت نگاری کی شعری اور فنی وسعتیں
شیخ عبد العزیز دباغ
ناظم اعلیٰ فریدِ ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ، لاہور
احمد ندیم قاسمی نے1995ء میں شائع ہونے والے ریاض حسین چودھری کے پہلے مجموعۂ کلام کا سر ورق لکھتے ہوئے انہیں ’’اس دور کے سب سے بڑے نعت نگار حفیظ تائب اور ایک اور نعت نگار حافظ لدھیانوی ‘‘ کی صف میں شمار کرتے ہوئے تحریر کیا:
’’ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ جب نعت کا آغاز کرتے ہیں تو ان پر وارفتگی اور سپردگی کی ایسی کیفیت چھا جاتی ہے جسے وہ ہر ممکن حد تک جاری رکھنا چاہتے ہیں اور نعت یا نعتیہ نظم یا نعتیہ قصیدے کو انجام تک پہنچانے کو ان کا جی نہیں چاہتا........ریاض چودھری اس دور کا ایک بھرپور نعت نگار ہے۔ ’’بھرپور‘‘ کا لفظ مَیں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے، اس نعت نگار کے کلام میں محبت کی سرشاری بھی ہے، لفظ اور لہجے کی موسیقی بھی ہے اور پھر وہ حدِ ادب بھی ہے جو نعت نگاری کی اولین اور بنیادی شرط ہے۔‘‘
اپنے تخلیقی عمل کو انجام تک پہنچانے کو جی نہ چاہنے کی کیفیت اور بھرپور نعت نگار ہونے کے مشاہدات ریاض کی نعت نگاری کی شعری اور فنی وسعتوں کی طرف واضح اشارہ ہیں۔ اس حقیقت کے شواہد خود ریاض کے کلام میں موجود ہیں۔ اپنے پندرھویں مجموعۂ کلام میں لکھتے ہیں:
مجھے کامل یقیں ہے موسمِ مدحت کی رم جھم میں
وفورِ نعت کے لب پر رہے گی انتہا رقصاں
اسی طرح اپنے بیسویں نعتیہ مجموعے ’’وردِ مسلسل‘‘ میں لکھتے ہیں:
سر پر ہے ثنا خوانی کی دستار مسلسل
کھلتے ہیں مری شاخوں پہ افکار مسلسل
توصیف کا منصب مرے اشکوں کو ملا ہے
الفاظ میں ہوتا نہیں اظہار مسلسل
’’مسلسل‘‘ کا لفظ ان کے ہر مجموعۂ کلام میںمختلف صورتوں میں کئی بار استعمال ہوا ہے۔ نعتِ مسلسل کی ترکیب بھی استعمال ہوئی ہے۔ پہلے ہی مجموعے ’’زرِ معتبر‘‘ میں یہ لفظ کوئی سولہ مرتبہ آیا ہے اور نعتِ مسلسل، کیفِ مسلسل، اضطرابِ مسلسل اور فیضانِ مسلسل جیسی تراکیب استعمال کی گئی ہیں اور وہ لکھتے ہیں کہ قرآن ایک مسلسل نعت ہے اور خود اسمِ محمدؐ ایک مسلسل نعت ہے:
ریاضؔ اسمِ محمدؐ تو خود اِک نعتِ مسلسل ہے
ترے الفاظ کیا، تیرا قلم، تیری زباں کیا ہے
’’وردِ مسلسل‘‘ ہی کی ایک نعت میں لکھتے ہیں:
صدقہ مرے قلم کا اتارے ہے آسماں، میرے لبوں کو چومنے آئی
ہے کہکشاں
مَیں نے کہی ہے نعتِ مسلسل ابھی ابھی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جیؐ
یوں ریاض نے’’ بھرپور‘‘ نعت لکھی اور نعت مسلسل لکھی۔ ریاض جب نعت لکھنے لگتے ہیں تو لکھتے چلے جاتے ہیں اور ان کااس عمل کو چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ وہ نعتِ مسلسل لکھ رہے ہوتے ہیں۔ زندگی کا آغاز مدحت سے کرتے ہوئے آخری سانسوں میں وہ ’’وردِ مسلسل‘‘ میں لکھتے ہیں:
بچّو! دمِ رخصت مرے، کہنا یہ اجل سے
ابّو تو ابھی مدحتِ سرکارؐ میں گُم ہیں
ریاض کی نعت کی شعری وسعتیں
اس طرح انہوں نے طویل نعت نگاری کی۔ اس طوالت کی ایک صورت یہ ہے کہ پندرہ یابیس سے زیادہ اشعار پر مشتمل نعت لکھتے لکھتے اسی قافیہ اور ردیف میں دو نعتیہ، سہ نعتیہ، چہار نعتیہ اور ہشت نعتیہ کلام تخلیق کیا جو پچاس یا ساٹھ یا اس سے بھی زیادہ اشعار پر مشتمل ہوتا۔ پہلے مجموعے ’’زرِ معتبر ‘‘ میں غزل کی ہئیت میں ان کی تخلیقات پندرہ، سترہ، اکیس یا اس سے بھی زیادہ اشعار پر مشتمل ہیں جب کہ’’ نئے سال کے آغاز پر ایک دعائیہ نظم ‘‘ سترہ قطعات پر مشتمل ہے۔ جب ان کے وفورِ نعت کی کیفیت بیکراں ہونے لگتی ہے تو ’’نئے دن کا سورج‘‘ کے عنوان سے 135 سطور پر مشتمل آزاد نظم لکھنے لگتے ہیں۔ 1999 میں ان کا دوسرا مجموعہ شائع ہوا جس کی حکومتی سطح پر پذیرائی ہوئی۔ یہاں وہ ہر صنفِ شعر میں طبع آزمائی کرتے نظر آتے ہیں: غزل نعت، نظم نعت، پابند کے علاوہ آزاد نظمیں، قطعات اور نعتیہ گیت کی متنوع ہئیتوں میں ایسی نعتیہ لغت کے پیرہن میں تخلیقات شامل ہیں جس سے انہیں اپنے ہم عصروں میں امتیازی مقام حاصل ہوا ہے۔ اس ’’بھرپور‘‘ نعت کی تجلی ہمیں ان کے تیسرے مجموعے ’’تمنائے حضوری‘‘ میں عیاں نظر آتی ہے جو 2000ء میں چھپا۔ یہ 150 قطعات پر مشتمل طویل نظم ہے جسے وہ ’’بیسویں صدی کی آخری طویل نظم‘‘ سے موسوم کرتے ہیں اور اسے اکیسویں صدی کے نام منسوب کرتے ہیں، یہ کہہ کر کہ یہ صدی بھی میرے پیمبر کی صدی ہے۔ وجدانی کیفیات کے حامل یہ 150 قطعات شعر و سخن اور فکر و فن کی وسعتوں کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ریاض نے کوئی ساٹھ ہزار نعتیہ اشعار تخلیق کئے۔ ان میں وہ کلام شامل نہیں جو انہوں نے ملی شاعری یا غزل کی صورت میںلکھا یا جو ابھی تک ان کی ڈائریوں میں لکھا ہے اور ہمارے ہاتھ نہیں لگا۔
ان کی طویل نعت نگاری کی دوسری صورت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ان کا کلام 23 نعتیہ مجموعوں پر مشتمل ہے جب کہ ہر مجموعہ دو سو یا اڑہائی سو یا تین سو صفحات پر مشتمل معقول ضخامت رکھتا ہے۔ پہلا مجموعہ 1995ء میں چھپا اور اُن کی زندگی میں آخری شائع ہونے والا مجموعہ اُن کا 13واں نعتیہ مجموعہ تھا۔ تین نعتیہ مجموعے ان کے وصال کے بعد شائع ہوئے ہیں جب کہ باقی سات مجموعے اس وقت ایک ساتھ زیر طبع ہیں۔
ریاض کی نعتِ مسلسل کا ظہور ان کے چھٹے مجموعے ’’سلام علیک‘‘ کی شکل میں 2004ء میں ہوتا ہے جسے انہوں نے ’’اکیسویں صدی کی پہلی طویل نعتیہ نظم‘‘ قرار دیا ہے۔ 600 اشعار پر مشتمل اس طویل نعتیہ قصیدے میں ریاض نے تصور جما کر درِ سرکار پر رسائی حاصل کی ہے۔ جب وہ اپنی تخلیقی توانائیوں کو یکجا کرتے ہیں تو جذبات کی شدت اور الفاظ کی ندرت انہیں وہ وفورِ نعت فراہم کرتی ہے جس سے ان کی بھرپور اور طویل نعت وجود میں آتی ہے جسے وہ مسلسل لکھتے چلے جاتے ہیں اور’’ اسے انجام تک پہنچانے کو ان کا جی نہیں چاہتا۔‘‘
ریاض کی بھرپور اور طویل نعت نگاری کا کائناتِ شعر کو بقعۂ نور بنانے والا جلوہ ان کا آٹھواں مجموعہ کلام ’’غزل کاسہ بکف ‘‘ بھی ہے۔ اس میں شامل پہلی نعت ’’ضمیر بولیں پیمبر کے فاصلوں کی طرح‘‘ چار سو اشعار پر مشتمل ہشت نعتیہ ہے۔ اس کے بعد چہار نعتیہ، سہ نعتیہ، دو نعتیہ اور مزید نعتیں شامل ہیں۔ ان تخلیقات میں ان کی کیفیات بھی نئی اور تراکیب بھی نو بہ نو ہوتی ہیں۔ یہ کہنا برحق ہے کہ اس وسعتِ شعر و سخن اور فکر و فن کی اردو ادب میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
ریاض کا نواں مجموعہ’’ طلوعِ فجر‘‘ معریٰ نظم میں لکھی گئی پانچ سو بندوں پر مشتمل اور 518 صفحات پر پھیلی ہوئی طویل نظم ہے جس کا موضوع آقائے محتشمؐ کا یوم ولادت ہے اور جس کے اعلیٰ وارفع موضوع پر لکھتے ہوئے خود ریاض حسین چودھری یوں گویا ہیںـ
’’پاکستان قریۂ عشقِ محمد ہے، ہم غلامانِ رسولِ ہاشمی کا حصارِ آہنی ہے۔ پاکستان عالمِ اسلام کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ یومِ میلاد وطنِ عزیز کی سلامتی کے لئے بارگاہِ خداوندی میں التجاؤں اور دعاؤں کا دن ہے۔ امت مسلمہ پر آنے والی ہر خراش پر مرہم رکھنے کا دن ہے۔ یہ دن پوری کائنات کے لئے عیدِ مسرت ہے۔ ‘‘
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحٰق قریشی نے طلوعِ فجر کے پیش لفظ میں لکھا ہے:
’’یہ طویل نظم ایک مستقیم انداز میں سیرتِ رسول ﷺ کا فیض بار حوالہ بن گئی ہے۔ ایک بحر میں اتنے فکر انگیز اور طربناک مصرعے نکالنا شاعر کے شعور کی پختگی اورمہارت کی شہادت ہے۔ یوں تو ہر بند ایک خیال کا پیکر ہے مگر خیالات کی بوقلمونی عقیدت کی یکسوئی کا عمدہ اظہار بھی ہے۔ اگر ساری نظم کو ایک عنوان دیا جائے تو ’طلوعِ فجر‘ کا منتخب عنوان بر محل لگتا ہے کہ ہر ہر مصرعے سے ایک نور پھوٹتا دکھائی دیتا ہے، نظم کیا ہے فشارِ نور کی ایک دلآویز حکایت ہے۔ انسانیت کی اصلاح و فلاح کے لیے ایک نور آسا راہنمائی ہے، شاعر نے بھٹکے ہوئے انسان کے لیے اُمید کی ایک فجر کا حوالہ دیا ہے کہ تاریکیوں سے چھٹکارا پانا ہے تو اس ’طلوعِ فجر‘ کی طرف توجہ دو کہ ہر ظلمت میں یہی نورکا حوالہ راہنما ہے۔ ‘‘
نعتِ مسلسل کا ایک اور انداز ملاحظہ فرمائیں کہ آٹھواں نعتیہ مجموعہ جنوری 2013ء میں شائع ہوا اور جنوری 2014ء میں نواں مجموعہ چھپا۔ مختلف ہیئتوں اور مختلف موضوعات کے حامل یہ دونوں مجموعے اپنی جگہ نعتیہ ادب میں گراں بہا اضافہ اور فن شعر کا انوکھا سرمایہ ہیں مگر ہم کیا دیکھتے ہیں کہ240 صفحات پر مشتمل ان کا دسواں مجموعہ ’’آبروئے ما‘‘ بھی’’ طلوعِ فجر‘‘ کے ساتھ ہی جنوری 2014ء ہی شائع ہوا۔ مدحت نگاری کا یہ انتہائی تیز رفتار دریا بلندیوں سے کسی آبشارِ نور کی طرح ریاض کی وادیٔ تخلیق میں گر رہا ہے۔ ’’آبروئے ما‘‘ کو وہ ’’اپنے پیارے بیٹے محمد حسنین مدثرکے اعزاز غلامی کے نام منسوب کرتے ہیں اور غلامی کا یہی سرور انہیں کملی کی طرح لپیٹے ہوئے ہے جس سے ان کی روح آسودہ ہے۔ انتہائی دل کش موضوعات کو شعری جمال کا پیکر عطا کرتے ہوئے جدتِ فکر اور وسعتِ نظر کے ساتھ وہ لکھتے چلے جاتے ہیں اور احساس غلامی کے کیف میں کتاب کا آغاز ہی اس شعر سے کرتے ہیں:
اگرچہ ایک بھی سکہ نہیں ہے جیب و داماں میں
مگر طیبہ میں زنجیریں غلامی کی خریدوں گا
یہ ہیں ہمارے زود گو شاعر ریاض حسین چودھری جن کی زود گوئی کے باوجود ان کے اسلوب میں یکسانیت کہیں نظر نہیں آتی بلکہ کثرتِ شاعری کے ساتھ ان کے ہاں ایک نیا پن اور طرزِ بیان کا نیا احساس کارفرما ہے جب کہ تخلیق شعر کا تیز دھارا روانی میں ہے اور اگلے ہی برس جنوری 2015ء میں’’زم زمِ عشق‘‘ ان کا گیارہواں مجموعہ بھی شائع ہوتا ہے اور قارئین کے لئے تسکینِ ذوق کا سامان کرتا ہے۔ پھر سال پورا نہیں گذرتا کہ بارہواں مجموعہ ’’تحدیثِ نعمت‘‘بھی اشاعت پذیر ہوتا ہے۔ میں یہاں پھر ان کے پندرہویں مجموعے سے یہ شعر لکھوں گا:
مجھے کامل یقیں ہے موسمِ مدحت کی رم جھم میں
وفورِ نعت کے لب پر رہے گی انتہا رقصاں
پھر 2017ء میں ان کا تیرھواں مجموعہ دبستانِ نو شائع ہوا جو کہ حمد و نعت کے موضوع پر نظمِ معریٰ کے حوالے سے پہلی کتاب ہے جس کا انتساب ہے: ’’جدید لہجے کے اُن نعت نگاروں کے نام جن کے قلم کی ہر جنبش نئے آفاق کی تسخیر کا مژدہ سنا کر ہر لمحہ محرابِ عشق میں محوِ درود رہتی ہے۔ ‘‘ معریٰ نعت کے حوالے سے یہ ایک منفرد تخلیق ہے۔ وہ ہر بند کے آخر میں مطلع کی ہیئت شامل کرتے ہیں۔ یہی تکنیک ریاض حسین چودھری اپنی طویل نعتیہ نظم ’’طلوعِ فجر‘‘ میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض مجید اس کتاب کے دیباچے کے طور پر اپنی مخصوص تحریر میں لکھتے ہیں:
ــ’’اس حوالے سے یہ مجموعۂ ثنا ایک شاندار انفرادیت لئے ہوئے ہے۔ اردو نعت کے عقیدتی اثاثے میں اس اعتبار سے یہ مجموعہ جداگانہ مفصّل مطالعے کا متقاضی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے، شیفتگی اور جذبے کا وفور ’دبستانِ نو‘ کا تخصّص ہے۔ اردو عقیدت نگاری کی تاریخ میں اس مجموعے کو ہمیشہ ایک یادگار حیثیت حاصل رہے گی۔ چودھری صاحب کی نعت گوئی کا بڑا حصہ ہم سب نعت کے شاعروں کی طرح غزل کی صنف میں کہی گئی نعتوں پر مشتمل ہے۔ غزل کی ترتیب اور مقبولیت کے سبب ہر دورِ نعت میں اس صنف کا اتنی محبت، شدّت اور کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ کسی دوسری صنف شاعری میں اس کا دسواں حصہ بلکہ عشر عشیر بھی نہیں برتا گیا۔ غزل کے علاوہ خصوصاً معّرا نظم میں ایسا ضخیم مجموعہ معاصر نعتیہ شاعری میں پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ اس سے اردو نعت کے ہیٔتی اور صنفی آفاق وسیع ہوئے ہیں۔ ‘‘
2017ء ریاض حسین چودھری کے نعتیہ مجموعوں کی اشاعت کے حوالے سے عجیب سال ہے۔ جنوری میں تیرھواں مجموعہ ’’دبستانِ نو‘‘ چھپتا ہے اور جون 2017ء میں ان کا چودھواں مجموعہ ’’لامحدود‘‘ اور پندہواں مجموعہ ’’کائنات محوِ درود ہے‘‘ پرنٹنگ کے لئے پریس بھیج دئیے جاتے ہیں۔ بعض حالات کی وجہ سے پرنٹنگ کے کام میں تاخیر واقع ہوتی ہے اور 6 اگست کو ہمارے پیارے شاعرِ رسولؐ مدینہ منورہ میں اس گھر کو سدھار جاتے ہیں جس میں انہوں نے اپنے وصال کے بعد سب سے چھپ کر چلے جانا ہوتا ہے۔
بعد مرنے کے چلے جائیں گے سب سے چھپ کر
ایک گھر ہم نے مدینے میں بنا رکھا ہے
پھر دسمبر 2017ء میں یہ دونوں مجموعے چھپ جاتے ہیں۔ راقم کو وہ بہت زور دیتے رہے کہ جلدی کریں مگر مجھے کہتے کہتے وہ خود جلدی کر گئے۔
میں نے ان کے غیر مطبوعہ نعتیہ مجموعوں کے بارے میں ان کے سولہویں مجموعے کے دیباچے میں تفصیلاً لکھا ہے۔ یہاں ایک اقتباس پیش ہے:
’’نعت کے غیر مطبوعہ مجموعے جن کی طباعت و اشاعت کے لئے ریاض مجھ سے بار بار وعدہ لیتے رہے میری زندگی کے اہم ترین کام کی حیثیت اختیار کر گئے۔ حسنین مدثر صاحب سے میرا مسلسل رابطہ تھا اور آخر ایک روز میں ان کے پاس پہنچ گیا اور مسوّدات کی زیارت کی درخواست کی۔ جب میں نے انہیں ملاحظہ کیا تو روح وجد میں آگئی۔ مرحوم نے ہر کتاب کے مسوّدے کو محبت کے ایسے قرینے سے مکمل کر کے الگ الگ محفوظ کیا ہوا تھا کہ حسن ترتیب کی مثال دیتے ہوئے میں یہ کہتا ہوں جیسے کوئی گرہستن اپنی بیٹی کی بَری ٹانک کر دکھاوے کے لئے سجا دیتی ہے۔ آٹھ مسوّدات تھے اور ایسے کہ ہر صفحے پر اشعار کی وہی تعداد درج تھی جو مطبوعہ صفحے پر مطلوب تھے۔ مجھے کمپوزنگ کراتے وقت صرف اتنا کہنا ہوتا کہ صفحہ بہ صفحہ کمپوز کر دیں۔ اور یوں تین ماہ کے قلیل عرصہ میں آٹھوں کتابیں کمپوز ہو گئیں۔ اب ایک ایک کر کے ویب سایٹ پر uplo ﷺ dبھی ہو جائیں گی اور اللہ کے فضل و کرم سے پرنٹنگ کے مراحل سے گذر کر کتابی شکل میں بھی آپ کے ہاتھوں میں ہوں گی۔ ‘‘
یہ تھا ریاض کی نعت نگاری کی شعری اور فنی وسعت کے ایک پہلو کا مختصر جائزہ۔
تخلیقی وسعتیں
کلامِ ریاض کے مطالعے سے اس قدر وسیع نعت نگاری کے تخلیقی عمل میں بھی تخلیقی وسعتوں کا سراغ ملتا ہے۔ ریاض کے ہاں تخلیقِ شعر ایک لاشعوری عمل ہے جس کو انہوں نے شعوری سطح پر محسوس کرنے کی کوشش میں ہمیں کچھ نادر تخلیقات عطا کی ہیں، جیسے پہلے مجموعے ’’زرِ معتبر‘‘ میں’ اہتمام‘ کے عنوان سے نعتیہ نظم میں اور دوسرے مجموعے ’’رزقِ ثنا‘‘ میں ’نعت کیا ہے‘ کے عنوان سے لکھی گئی نظم میں ان کے تخلیقی عمل کے خدوخال ملتے ہیں۔ میں نے جب اُن کے تخلیقی عمل کی ادبی اور فنی نوعیت کو قلبی طور پر محسوس کیا تو اسے ایک وہبی عمل کا خزینہ پایاجس کی وسعتیں عالمِ وجدان کی لامحدودیت کو محیط ہیں۔
تخلیقی عمل
پروفیسر عبدالعزیز نے ریاض کی نعت کے تخلیقی عمل کو تغزّل اور شعریت کی ایک وہبی صورت قرار دیا ہے۔
ـ’’جنابِ ریاض کی ’’کشکولِ آرزو‘‘ کے عناصرِ ترکیبی اور عملِ کیمیائی ادراک میں آ بھی جائیں تو بھی ورائے ادراک سی داستان لگتی ہے۔ ان کا نفسِ ناطقہ، لطافتِ تخیل، تشکیلِ معانی عملِ تخلیق اور طرزِ اظہار ان کی ذات میں اس طرح آمیختہ ہیں کہ ان کی نعت کا تغزّل اور شعریت ایک وہبی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ ‘‘
اسی وہبی تخلیقی عمل کے ضمن میںپروفیسر عبدالعزیز مزید لکھتے ہیں:
’’حقائقِ حیات کے تنوّع، حوادثاتِ زمانہ کی حشر سامانیوں اور انسان کے نفسِ خلاّق کی حساّسیت کے فروغ نے گریباں چاک کرنے کی بجائے نمودِ فن کے تتّبع میں قبائے شعر ہی کو وسعتِ داماں سے ہمکنار کر دیا اور یوں عملِ تخلیق کا دریا، حسنِ شعر کی جملہ رعنائیوں کو اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے اچھل کر سمندر ہو گیا اور اس طرح حسنِ شعر کے نئے معیار وجود میں آگئے۔ نعت نگاری میں ریاض کا تخلیقی عمل بھی اکثر ایسی صورتحال سے دوچار ہو جاتا ہے جب شعر کی تنگ دامانی اور اظہار کی حسرت کا تضاد انہیں آزاد نظم کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتا ہے اور نعت کی روایت سے یکسر ہٹ کر آزادیٔ اظہار کی یہ جرأتِ فن انہیں پیشوائی کی مسند پر فائز کر دیتی ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر نے ’’کشکولِ آرزو‘‘ کا پسِ ورق تحریر کرتے ہوئے لکھا:
’’مجھے تو ریاض حسین چودھری کا پورا وجود مصروفِ نعت گوئی نظر آتا ہے۔ اُن کا تخیل اور مشاہدہ ہر جلوۂ رنگ و نور میں نبی اکرم ؐ کے خد و خال کو تلاش کرتا ہے۔ اُن کے ہاں الفاظ اور ترکیبیں (پازیبِ زر، ارضِ شعور، ذرّۂ ارضِ بدن ) رقص کرتی اور دف بجاتی نظر آتی ہیں ان کا شعورِ نغمہ ایک غیر ارضی استعارہ بن گیا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
’’ریاض حسین چودھری کو شرف نعت گوئی منجانب اللہ ملا ہے۔ یہ عطیۂ خداوندی اور توفیقِ الٰہی ہے۔ کسب و ریاضت سے کیا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، مگر شرفِ نعت گوئی نہیں، یہ صرف اور صرف حضور اکرمؐ سے والہانہ اور مجذوبانہ عشق کرنے والوں کو ملتا ہے۔ یہ انہیں وافر مقدار میں میسر ہے اور اس دولتِ بیدار پر ریاض حسین چودھری جس قدر ناز کریں کم ہے۔ وجدان و عشق کی کار کشائی…شعر گوئی…خصوصاً نعت گوئی کے باب میں مسلّم ہے اور ریاض کے ہاں نعت گوئی کا یہی وصفِ جمیل دامنِ دل کو کھینچتا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ’’طلوع فجر‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’ نعت ایک توفیق ہے جس کو بھی مل گئی محترم قرار پایا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ کسی کو یہ توفیق جزواً حاصل ہوئی کہ وہ دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ نعت کا حق بھی ادا کرتا رہا تو کسی کو اس توفیق نے کلیۃً اپنے دامنِ کرم میں لے لیا اور وہ سراپا مداحِ رسول ﷺ بن گیا۔ ایسے خوش قسمت شاعر ہر لمحہ نعت کے ذوق سے مسرور رہتے ہیں، اُن کے افکار پر نعت یوں چھا جاتی ہے کہ اُن کے شعور کا ہر گوشہ نعت گزار ہوجاتا ہے، کس قدر خوش قسمت ہے وہ انسان جو ہر وقت حسنِ تمام کے حصار میں رہے، ایسے شاعر تقدیس کا نشان اور خرد افروزی کا حوالہ ہوتے ہیں، مقامِ مسرت ہے کہ ہمارا ممدوح شاعر جسے لوگ ریاض حسین چودھری کہتے ہیں مگر میں تو اُنہیں ’’نقشِ حسّان‘‘ کہنا پسند کرتا ہوں، ہر لمحہ حاضرِ دربار رہتا ہے۔ ہئیت کوئی بھی ہو، بحر کیسی بھی ہو، ردیف و قافیہ کسی قدر مختلف بھی ہو ہمارا شاعر ایک ہی خیال کا اسیر رہتا ہے کہ اُس کے کلمات، تراکیب اور نظمِ شعر کا ہر رُخ غلامی کی سند پائے۔ یہ خواہش صرف ذات کی حد تک نہیں ہے، ذات کے ہر حوالے کے بارے میں بھی ہے۔
صد شکر میرا سارا قبیلہ غلام ہے
میری ہے اُن ﷺ کی سایۂ رحمت میں سلطنت
یہ سایۂ رحمت جو سحرِ نور بن کر شاعر کے موجِ خیال پر محیط ہے، ایک دو برس کی بات نہیں اور نہ ہی یہ شعورِ زندگی کے ساتھ پروان چڑھا ہے بلکہ یہ تو شاعر کے وجود کا جزوِ لازم ہے جو ان کے فکرو خیال کو حصار میں لیے ہوئے ہے۔ ‘‘
شیخ عبدالعزیز دباغ ’’غزل کاسہ بکف کے تعارف میں لکھتے ہیں:
ـ’’ان کا قلم ان کا مصاحب ہے مشیر ہے اور وفا شعار دوست کی طرح ان پر نچھاور ہوتا رہتا ہے، رعائتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ریاض کے سامنے رکھتا ہے اور وہ ان کوسرمہ کی طرح چشمِ قلم میں لگا کر اس کی آبِ بصیرت کو تیز تر کر دیتے ہیں۔ ریاض جس لفظ کو اٹھا کر جس لفظ کے ساتھ چاہیں جوڑ لیں، معنوی حسن کی سیج سجتی ہی چلی جائے گی۔ ‘‘
اپنی مدحت نگاری کے حوالے سے ریاض حسین چودھری کی اپنی رائے بھی جاننا چاہئے۔ جناب حفیظ تائب نے ریاض حسین چودھری کے 1995ء میں چھپنے والے پہلے مجموعۂ نعت کے پیش لفظ ’’پیشوائی‘‘ میں لکھا:
’’مجلہ ’’اوج‘‘ کے نعت نمبر میں ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کے سوال آپ نعت گوئی کی طرف کیسے مائل ہوئے بنیادی محرکات کیا تھے…؟ کے جواب میں ریاض حسین چودھری نے لکھا ہے : ’’یوں لگتا ہے، جیسے ازل سے میری رُوح حصارِ عشقِ محمد ﷺ میں پناہ گزیں ہے۔ ازل سے اُنہی قدوم مبارک میں جبینِ نیاز سر بسجود ہے، شعور کی آنکھ کھولی تو گھر میں اﷲ اور اس کے حبیب ﷺ کے ذکرِ اطہر سے فضا کو معمور پایا۔ میں شعوری طور پر نعت کی طرف نہیں آیا، اس لیے بنیادی محرکات کی توجیہ کرنے سے قاصر ہوں۔ ‘‘
اسی مجموعے میں اپنی تعارفی تحریر میں ریاض خود لکھتے ہیں:
’’مجھے نہیں معلوم کہ کب خلعتِ انوارِ عشق مصطفیٰ کلکِ بامراد کو عطا ہوئی، میں نہیں جانتا کہ کب سے نزولِ آیتِ عشقِ نبی کی بادِ بہاری گلشنِ ہستی کی روش روش پر مہک رہی ہے، مجھے نہیں خبر کہ کب منصبِ نعت گوئی کا زائچہ ہاتھ پر رقم ہوا، اور کب اور کہاں متاعِ قلب و جگر مکینِ گنبدِ خضرا کے نعلین پاک پر نثار ہوئی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے، جیسے ازل سے درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں لیے غریبوں کے والی اور یتیموں کے مولا کے حضور دست بستہ کھڑا ہوں اور حکمِ خداوندی بجا لا رہا ہوں۔ ‘‘
اپنے دوسرے مجموعے ’’تمنائے حضوری ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’میں اکثر چشمِ تصور میں دیکھتا کہ میں ایک پرندہ ہوں اور ہوائے مخالف کی پروانہ کرتے ہوئے ازل سے مدینے کی جانب اڑ رہا ہوں۔ ‘‘
عمر بھر رختِ سفر کھولنا پڑتا نہ مجھے
مَیں ازل ہی سے مدینے کا مسافر ہوتا
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں سرِ بزمِ ازل کیف کا عالم ہوتا
’’کشکول آرزو‘‘ میں لکھتے ہیں:
روزِ الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا
میں نے بڑے خلوص سے چوما اسے ریاضؔ
اور پھر قلم حضورؐ کے قدموں میں رکھ دیا
ازل سے نعت نگار
آپ نے ملاحظہ کیا کہ جو بات ریاض کی نعت کا مطالعہ کرنے والے اور ادبِ نعت کا ذوق رکھنے والے ہر قاری نے محسوس کی ہے اس کی مابعد الطبیعات پر مفکرین ادب اور اساتذۂ فن نے کھل کر اظہار خیال کیا ہے اور یہ بات تسلیم کی ہے کہ نعت توفیق ایزدی ہے اور جو نعت ریاض نے تخلیق کی ہے اور جس اسلوب، لب و لہجے اور شعری لغت کو اپنایا ہے وہ منجانب اللہ ہے۔ یقیناً نعت میں شعریت کی یہ ایک وہبی صورت ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم یہاں ریاض کی نعت کا شعری اور فنی جائزہ لیتے ہوئے یہ بات کہہ رہے ہیں اور یہ ذاتی پسندیدگی یا شہرت کی جستجو کا معاملہ ہر گز نہیں۔ بھلا احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر، پروفیسرڈاکٹر محمد اسحٰق قریشی، ڈاکٹر ریاض مجید اور ڈاکٹر خورشید رضوی اور دیگر سرکردہ نامور ادیب، شاعر، محققین اور مفکرین ادب کیونکر ریاض کی تخلیق نعت کے ضمن میں ایک ہی مشاہدہ کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ دیکھئے جناب محمد افضل فقیر تخلیق نعت کے حوالے سے نعت کے مثالی اسلوب کے ضمن میں کیا رائے رکھتے ہیں:
’’دیگر اصنافِ سخن کی طرح نعت اور نعت گو کے باہمی ربط کا تجزیہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاعر کے کردار کی پاکیزگی، صفائے باطن اور اخلاصِ عمل کی تاثیرات اس کے پیکرِ نعت میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ایک صاحبِ ذوق عارف کسی صنفِ سخن میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرے، متصوّفانہ نظریات سے اس کا کلام لبریز نظر آئے گا۔ پھر صنفِ نعت تو باطنی ارادت کی عظیم ترین ترجمان ہے۔ ایک مرتبہ مولانا غلام قادر گرامی نے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو لکھا کہ حضرت شاہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہ کی زمین میں شعر لکھنے کے لئے اُن کا وجدان اور تقویٰ کہاں سے لاؤں؟معلوم ہوا کہ عظمتِ تقویٰ اور بلندیٔ کردار شہپارہ نظم پر اس طرح متجلّی ہوتے ہیںکہ پھر اس کی تقلید بھی از قبیل محالات ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر دیگر نعت گو حضرات بھی ہیں، ان کی کاوش بھی قابلِ ہزار تحسین ہے کہ اُن کے سینوں میں اقرارِ توحید و رسالت موجود ہے، جو معارفِ نعت کا مخزن ہے۔ پھر اس کے ساتھ احساس گنہ گاری بھی ہے جو توبہ و انابت کی اصل ہے اور احساسِ ندامت ایک ایسا لامعہ نیاز ہے جس کی سرحدیں الطافِ ذاتِ لم یزل کو مماس ہیں۔ ویسے بھی ہر کلمہ گو پر واجب ہے کہ اپنے ولیٔ نعت کا سپاس گزار رہے۔ ہر وہ امتی جس کی زبان یا قلم سے کوئی مدحیہ کلام بہ صورتِ نظم و نثر صادر ہو ایک سپاس گزار ناعت ہے۔ ‘‘
یہی وہ صفائے باطن اور اخلاصِ عمل کی تاثیرات ہیں جنہوں نے ریاض کی باطنی ارادت کو جنم دیا۔ پھر کچھ بھی ان کے بس میں نہ رہا جب کہ شعوری طور پر وہ آگاہ ہیں اور ’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں:
ــ’’اس حقیقت کو چراغِ راہ بنانا ہو گا کہ نعت درود و سلام کے پیکر شعری کو کہتے ہیں۔ اقلیم نعت میں کسی قسم کی بے تکلفی کو داخلے کی قطعاً اجازت نہیں۔ ‘‘
مگر تخلیق نعت کا شعور انہیں کب ودیعت ہوا، یہ انہیں معلوم نہیں، البتہ وہ اپنی سوچ کے حوالے سے یہی جانتے ہیں:
میں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاض
جب بھی سوچوں گا نبی کی نعت ہی سوچوں گا مَیں
وہ خود کو ایسا پرندہ محسوس کرتے ہیں جو بادِ مخالف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ازل سے مدینے کی جانب محوِ پرواز ہے۔ سید فقیر وحید الدین نے ملفوظات اقبال میںلکھا ہے کہ اقبال کے دروازے پر رات گئے دستک ہوئی۔ آپ نے باہر نکل کر دیکھا تو انہیں کوئی نظر آیا جو یہ کہتے کہتے نظروں سے اوجھل ہو گیا کہ تین ہزار لشکریوں کی ضرورت ہے۔ پھر اقبال اپنی تخلیقی رو میں بہہ گئے اور لکھتے گئے حتیٰ کہ ’’مثنوی پس چہ باید کرد ‘‘ کے تین ہزار اشعار مکمل ہو گئے۔ کیا یہی اشعار وہ لشکری تھے جن کا غیبی طور پر تقاضا کیا گیا؟ یہ تو مشیت ایزدی اور حکم خداوندی کا معاملہ ہے اسے آپ کیسا تخلیقی تجربہ کہہ سکتے ہیں جس کا کنٹرول عالمِ غیب میں ہے اور جس کا وجود ایک خود رو چشمے کی طرح ہے جو پھوٹ پڑتا ہے اور بہنے لگتا ہے اور بہتا چلا جاتا ہے اور اسے ’’زم زم‘‘ کہنے والا کوئی نہیں۔ یہی ہم نے ریاض کے بارے میں دیکھا ہے کہ’’ تمنائے حضوری‘‘ کے 150 بند لکھے اور خود کو آفس میں بند کر کے لکھے اور گریہ کرتے ہوئے لکھے۔ ’’طلوعِ فجر ‘‘ کے 518 صفحات پر 500 بند لکھے، ’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں 400 اشعار کا ہشت نعتیہ پھر چہار نعتیہ، سہ نعتیہ اور دو نعتیہ لکھے، پھر دبستان نو میں معریٰ نعت کے 464 صفحات لکھے، 2014ء میں ان کے تین مجموعے شائع ہوئے اور سالِ وصال میں پھر تین مجموعے شائع ہوئے اور وصال کے بعد پتہ چلا کہ آٹھ مجموعے ابھی شائع ہونے والے باقی ہیں۔ ان کے تخلیق کردہ اشعار کی کل تعداد 60000 سے تجاوز کر جاتی ہے۔ تخلیقات کے اس طوفانی چشمے کے پیچھے کون سا تخلیقی عمل کارفرما ہے! اسے ریاض ازل سے نعت گوئی کا تخلیقی تجربہ قرار دیتے ہیں جس کا اظہار ان کے تمام مجموعہ ہائے نعت میں ملتا ہے۔ وہ’’ متاعِ قلم‘‘ مطبوعہ 2001ء میں لکھتے ہیں:
روزِ ازل سے مجھ پہ کرم ہے حضورؐ کا
ورنہ ریاضؔ کیا مری اوقات اور مَیں
دیدارِ مصطفیٰؐ کی تمنّا لئے ہوئے
روزِ ازل سے ایک پرندہ سفر میں ہے
’’خلدِ سخن‘‘ میں لکھتے ہیں:
کیا خبر ہے کب ملی کونین کی دولت مجھے
کر رہا ہوں میں ازل ہی سے ثنائے مصطفیٰؐ
ہر شب فصیلِ عشق پہ بنتا ہے یہ چراغ
روزِ ازل سے دیدۂ بیدار ہے قلم
ازل سے روشنی خلدِ سخن میں رہتی ہے
ازل سے چاند ستارے ورق پہ ملتے ہیں
ازل سے خوشبوئے نعتِ نبیؐ ہے سانسوں میں
ازل سے پھول جوارِ قلم میں کھلتے ہیں
’’آبروئے ما‘‘ میں لکھتے ہیں:
حروفِ روشن کی دلکشی سے قلم کے باطن میں رتجگا ہے
مرے تخیّل کا سبز موسم ازل سے رقصاں ہے میرے فن میں
’’تحدیثِ نعمت‘‘ میں لکھتے ہیں:
عالمِ ارواح میں بھی رقص کرتا تھا قلم
یہ وفورِ نعت میری روح کے اندر کا ہے
ریاض کی نعت نگاری میں مضامین کا تنوّع
ریاض کی نعت نگاری میں مضامین کے تنوع کا جائزہ لینا اس مقالے کے نظم میں نہیں آتاکیونکہ اس میں ہم نے فکری وسعت کی بحث کو شامل نہیں کیا۔ تاہم ان کے مضامین کے تنوع کا اندازہ یہیں سے لگایا جا سکتا ہے کہ 23 مجموعہ ہائے نعت میں اگر کوئی ساٹھ ہزار اشعار شامل ہوئے تو مضامین کے تنوع کی صورت کیا ہو گی۔ چیدہ چیدہ موضوعات کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں: غلامی، حضوری، حضوری کی تمنا، ادب گاہیست زیر آسماں، ادب رسولؐ، درود و سلام، میلاد، جشنِ میلاد، لحد میں نعت نگاری کی تمنا، روزِ محشر مدحت نگاری کی پذیرائی، مدینہ، مدینہ میں گھر اور سکونت، روشنی، بادِ صبا، مدینہ کے ساتھ نامہ بری، خوشبو، قلم، امت کا غم، ملک و قوم کی محبت، قیادت کے فقدان کا دکھ، ذاتی مسائل اور التجائیں، بچے، گھربار، خاندان، سیرت و کردار، علم و ہنر، نئی نسل کی نشونما، ارتقاء حصول علم اور تعلیمی زوال کے نوحے، اصنافِ سخن، غزل اور نعت، غزل، غزل اور نعت کو بطور مضمونِ نعت اشعار کا موضوع بنایا۔ چڑیاں، جگنو، تتلیاں، کنیزیں، پھولوں کے گجرے، روز محشر اپنے نعت نگار قبیلے حافظ، تائب اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے ساتھ رہنے کی تمنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس موضوع پر کسی اور وقت میں تفصیلی بحث کی جائے گی کہ کن کن مجموعوں میں کیا کیا مضامین لئے گئے اور کیوں!
فنی وسعتیں
ان کی وسیع نعت نگاری کے متعدد پہلو ہیں۔ ان کی نعت کے مضامین متنوع اور اَن گِنت ہیں اور زندگی کے جملہ معاملات و مسائل کو محیط ہیں۔ یہ تنوع صرف مضامین کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ وسائلِ اظہار کے حوالے سے بھی ہے۔ انہوں نے تشبیہات، استعارات، تراکیب، رعایات اور نعتیہ لغت کے معانی کو بھی وسعتیں عطا کی ہیں اور نئی تراکیب اورنئے استعارات تخلیق کئے اور شعری روایت میں گراں بہا اضافے کئے ہیں جس سے زیبائشِ اظہار کے حوالے سے اردو کے نعتیہ ادب میں لغوی حسن کو فروغ ملا ہے۔ ریاض نے زندگی کے جدید حوالوں کے مطالب و مفاہیم روائتی نعت کے دامن میں ڈال کر ایک نئی دنیائے معانی اور ایک نیا جہانِ حرف و صوت تخلیق کیا جو صرف ریاض کا جہانِ نعت ہے۔
شیخ عبدالعزیز دباغ ’’غزل کاسہ بکف‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’ ریاض جس لفظ کو اٹھا کر جس لفظ کے ساتھ چاہیں جوڑ لیں، معنوی حسن کی سیج سجتی ہی چلی جائے گی۔ گہرائی اور گیرائی آسمان سے نازل ہوتی دکھائی دے گی۔ ملائکہ کے پر نظر آنے لگیں گے۔ ہوا آتی جاتی گنگناتی سنائی دے گی، قلم حسنِ حرف و صوت میں مسرورو رقصاں حسنِ تغزل کو دادِ تحسین دے رہا ہو گا، لفظ لفظ نشۂ معنیٰ کا جام پیتا ملے گا۔ بال و پر اُگتے، اُڑتے، جھڑتے ملیں گے۔ خوشبو تسکین کدۂ نعت کی تزئین کر رہی ہو گی، قبر ہو یا حشر، ریاض درِ مصطفیٰ ﷺ پر ہی ملے گا، نعت کہتا ہی ملے گا، نعت سناتا ہی ملے گا۔ ریاض ہرگز تنہا نہیں۔ اس کی علاماتِ تغزّل اس کے زندہ اصحاب و احباب ہیں۔ حرف و قلم ہوں یا ورق، نطق ہو یا لہجہ، پھول ہوں یا دھنک، ہوا ہو یا طاق، چراغ ہو یا ہتھیلی، فصلِ گل ہو یا خلدِ سخن، موسمِ ثنا ہو یا سخن کی کلیاں، مصرع ہو یا غزل، اشعارِ نعت ہوں یا زائرینِ مدینہ، راستے ہوں یا شام و سحر سب کچھ ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کا گھر بار بچے بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک خاندان کی طرح آپس میں کئی معنوی رشتوں میں پروئے ہوئے ہیں اور ریاض ایک ماہرِ فن، جو کہ وہ ہیں، جس کو جس کے ساتھ چاہیں جوڑ کر نئے نئے معانی اور نئے نئے مضامین تخلیق کرتے چلے جائیں، وہ اس راہ پر چلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ نہ کہیں رکتے ہیں نہ تھکتے ہیں اور نہ تنہا ہوتے ہیں۔ ایک کارواں ہے جو ان کے ساتھ ساتھ رواں دواں ہے اور یہ خود اس کے قافلہ سالار ہیں ‘‘:
نعتِ حضور چشمۂ انوار ہے مگر
ہے لفظ لفظ نعت کا تنہا بھی روشنی
مصرع اٹھا رہے ہیں نئی نعت کا ریاضؔ
شبنم، دھنک، چراغ، شفق، چاندنی، ہوا
ریاض حسین چودھری کے ہاں ہمیں پیرایۂ اظہار کا ایک پورا علامتی نظام نظر آتا ہے۔ ہر لفظ کا ہر دوسرے لفظ، ہر استعارہ و تشبیہہ اور ہر علامت کا حرف حرف سے قریبی اور قلبی تعلق ہے۔ خوشبو، ہوا، چراغ کرن، جگنو، تتلیاں، کالی گھٹا، سبز پانی، آنگن کی چڑیاں سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں، جو جس کے ساتھ چاہے مل بیٹھے اور محفلِ توصیف و ستایش کو صبحِ گلستاں کر دے۔ یہ علامتی نظام باہمی رعایتوں کے حوالے سے نئی نئی تراکیب اورنئے نئے استعارات کو جنم دیتا ہے۔ اور یوں ریاض کا متنوع فنِ اظہار وجود میں آتا ہے۔ ’’کشکولِ آرزو‘‘ کے یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
آؤ پھر لفظوں کے سر پر رکھیں دستارِ سخن
آؤ پھر سوچوں کو پوشاکِ دعا دیتے چلی
آؤ پھر بانٹیں چمن میں خوشبوؤں کے پیرہن
آؤ پھر جذبوں کو کردارِ صبا دیتے چلیں
ہم، قلم کو شہرِ ہجرِ مصطفیٰ کا دیں مزاج
لوحِ جاں کو رتجگوں کا سلسلہ دیتے چلیں
ریاض ’’بھرپور‘‘ شاعر ہیں اور بھرپور شعر کہتے ہیں۔ ہر لفظ کو یوں استعمال کرتے ہیں جیسے وہ اسی مقام کے لئے بنا ہے۔ یہی مفہوم ہے ’’لفظوں کے سر پر دستارِ سخن‘‘ رکھنے کا۔ کئی اور مقامات پر وہ لفظوں کوــ’’ لب کشا حروف یا ا لفاظ ‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے مفہوم بھرپور طریقے سے ادا کرنے والے الفاظ:
سب حروفِ لب کشا کے لب معطّر ہیں ریاضؔ
سب حروفِ معتبر میں روشنی ہے روشنی
اس طرح وہ سوچوں کو پوشاکِ دعا پہنا کر الفاظ کے سر پر دستارِ سخن رکھتے ہیں، انہیں ’’لب کشا‘‘ بناتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی ٹیکنیک یہ ہے کہ وہ اعلیٰ و ارفع مضامین کو اسیے الفاظ کا پیرہن دیتے ہیں جو آپس میں استعاراتی رعائیتوں میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ نعتِ مسلسل لکھتے لکھتے ہر مضمونِ نعت کے لئے ان کے پاس مناسب ’’لب کشا‘‘ الفاظ کی لغت موجود رہتی ہے جسے وہ تخلیقی پیرائے میں استعمال کرتے ہیں یعنی ’’قلم کو شہرِ ہجرِ مصطفیٰ کا مزاج‘‘ دیتے ہیں، چمن میں خوشبوؤں کے پیرہن بانٹتے ہیں، جذبوں کو کردارِ صبا دیتے ہیں اور یوں ان کا فن اَن دیکھی وسعتوں کا امین بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ تراکیب، مفاہیم اور علامتی اظہار ہمیں ریاض کے ہاں ہی ملتا ہے۔
طاقِ سخن میں میری غزل احترام سے
آکر چراغِ نعت رکھے بعد حشر بھی
موسم ثنا کا شہرِ غزل میں مقیم ہے
کلیاں سخن کی بانٹتی ہے آج بھی ہوا
پہلے شعر میں زمانی وسعت حشر کے بعد تک چلی گئی ہے اور غزل ان کے طاقِ سخن میں چراغِ نعت رکھ رہی ہے۔ یہاں غزل ان کے حسنِ اظہار اور حسن شعریت کا استعارہ ہے اور محض صنف شعر کا اشارہ نہیں۔ طاقِ سخن نئی ترکیب ہے اور چراغِ نعت کی اضافت اور ترکیب اسی طاقِ سخن کی رعایت سے استعمال ہوئی ہے۔ دوسرے شعر میں شہرِ غزل کی ترکیب استعمال کی گئی ہے جس میں ہوا سخن کی کلیاں بانٹتی ہے۔ غزل ان کا فن شعر ہے جس میں ہوا ان کی سوچوں کا رواں دواں تسلسل ہے اور کلیاں ان کے اشعار ہیں جو ہوا کے چلتے رہنے کے ساتھ ساتھ کھِلتی چلی جاتی ہیں۔ مگر شعر کا مفہوم یہیں تو ختم نہیں ہو جاتا۔ ثنا کا موسم نعت کی لغت کا ایک اہم باب ہے جبکہ غزل کا اپنا ایک وسیع مفہوم ہے، ثنا کی کلیاں محبت کی سرشاریوں کی خوشبوئیں بکھیرتی ہیں۔ ریاض اسی کو نعت کہتے ہیں۔
فنِ اظہار کا یہ معاملہ ان کی زندگی کے سب سے پہلے لکھے گئے شعر سے لے کر زندگی کے آخری شعر تک پھیلا ہوا ہے۔ پہلا شعر کیا تھا اس بارے تو معلوم کرنا ممکن نہیں، ہاں، آخری شعر انہوں نے اپنی وفات سے کچھ دیر قبل کہا اور بتا بھی دیا کہ یہ میرا آخری شعر ہے، ملاحظہ فرمائیں:
مَیں اکثر سوچتا رہتا ہوں اے کونین کے مالک
تری جنت مدینے سے کہاں تک مختلف ہو گی
مدینے کو اپنی جنت کہنا چاہتے ہیں مگر ’’بھرپور‘‘ اظہار کے تقاضے جانتے ہوئے وہ اس کا بھرپور اظہار حسنِ تقابل سے کرتے ہیں اور مالکِ کون و مکاں سے مخاطب ہو کر سوال کرتے ہیں کہ جس جنت کے لئے مومنین اپنی جانیں تیرے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اس میں اور مدینے کی جنت میں کیا فرق ہو سکتا ہے! ریا ض کا یہ ایک محبوب مضمون ہے جو ان کے ساٹھ ہزار لکھے گئے اشعار میں ہر کہیں در آتا ہے۔ ریاض کو یہ فنی وسعتیں واقعتاً ازل ہی سے ودیعت ہیں کیونکہ محبِ نبیؐ خدا نے انہیں توصیف پیمبر کا منصب عطا کرنا تھا۔
ریاض کی فنی وسعتوں کا معاملہ ایک الگ موضوع ہے جسے اس مقاملے میں کما حقہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی لطافتِ تخیّل، تشکیل معانی کے طریقے، ان کی مخصوص نعتیہ لغت اور طرزِ اظہار میں نئی تراکیب اورنئے استعاروں کی توضیع اور شعریت کے ’’بھرپور‘‘ انداز کا شعور ایسے پہلو ہیں جس کے لئے ان کے جملہ 23 مجموعوں کے تحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد اکرم رضا کا مشاہدہ ملاحظہ فرمائیں۔ ’’خلد سخن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ریاض صرف حسین تر الفاظ ڈھونڈتے ہی نہیں ہیں بلکہ ان سے کام لینے کا انداز بھی جانتے ہیں انہیں بجا طور پر احساس ہے کہ تمام زبانیں اور ان زبانوں کے تمام الفاظ اور تمام تراکیب و استعارات کا بہترین مصرف ہی یہی ہے کہ یہ توصیفِ حضور ﷺ میں استعمال ہو سکیں۔ ریاض فقط لفظوں کا ذخیرہ دکھا کر اپنی جادوبیانی کی دھاک بٹھانے کے تمنائی نہیں بلکہ وہ تو الفاظ کو نعتِ مصطفیٰ ﷺ میں اس طرح سجاتے ہیں کہ بجا طور پر احساس ہونے لگتا ہے جیسے یہ لفظ فقط اسی مقام پر استعمال ہونے کے لیے وجود میں آیا تھا۔ ‘‘
1995ء میں شائع ہونے والے پہلے مجموعۂ نعت میں تخلیقِ نعت کے اہتمام کے موضوع پر ریاض نے ایک خوبصورت نظم لکھی جس کے چند اشعار یہاں لکھنا ضروری معلوم ہوتے ہیں تا کہ یہ بحث مکمل ہو سکے۔ طوالت کی وجہ سے کچھ اشعار حذف بھی کئے گئے ہیں:
زباں آبِ زر سے وضو کر کے آئے
لغت کورے کاغذ پہ آنکھیں بچھائے
پسِ حرف جذبوں کی مشعل جلائے
تغزل جبینِ سخن کو سجائے
مرا نطق سجدوں پہ سجدے بسائے
بساطِ ادب پر بیاں سر جھکائے
اُفق دَر اُفق روشنی جگمگائے
سحابِ نظر چاندنی میں نہائے
بہارِ چمن تِتلیوں کو جگائے
پرندوں کو بادِ سحر گُدگدائے
شرابِ محبت کی مستی چرائے
روش در روش موتیا لہلہائے
صبا خاکِ طیبہ کی سوغات لائے
دیارِ عقیدت کی باتیں بتائے
قصیدہ جمالِ نبیؐ کا سنائے
غزل مجھ پہ احسان اپنے جتائے
سخنور فصاحت کے دریا بہائے
سرِ عرش جبریل مصرع اُٹھائے
مَیں توصیفِ ختم الرسل لکھ رہا ہوں
قلم اِس سعادت پہ خوشیاں منائے
مگر گردشِ وقت سے التجا ہے
کہ امشب جہاں ہے وہیں ٹھہر جائے
خُدا کو میں نعتِ نبی تو سُنا لو
حجابات کے سارے پردے ہٹا دوں
ہیئت شعری کا معاملہ
ریاض نے فنِ اظہار کی جملہ سہولتوں کو نعت نگاری کے فن کی زینت بنایا۔ نعت عمومی طور پر غزل کے پیرائے میں لکھی گئی ہے۔ ریاض ایک غزل گو شاعر تھے۔ غزل نگاری کے تخلیقی تقاضوں سے خوب آشنا تھے۔ ان کے مجموعہ غزلیات کو بھی مرتب کرنے کا کام ہو رہا ہے۔ ان کی نعت کا غالب حصہ اسی صنف غزل میں تخلیق ہوا۔ مگر انہوں نے صنفِ نظم کی تمام ہئیتوں کوبھی تخلیقی اشتہا کے ساتھ استعمال کیا۔ پابند نظم، معریٰ نظم، آزاد نظم، گیت، ماہیے، غرض ہر نوع کی نعتیہ نظم لکھی اور طویل اور بھرپور لکھی۔
حفیظ تائب ’’زرِ معتبر‘‘ میں ’’پیشوائی‘‘ کے عنوان سے اپنی تحریر میں لکھتے ہیں:
’’زرِ معتبر‘‘ میں نعتیہ شاعری کو آزاد اور پابند نظموں کے وسیع امکانات کے ذریعے، نئے آفاق دکھائے گئے ہیں تو غزلیہ انداز کی نعتوں کو جدید تر اسالیب سے ہم آہنگ کر کے نیا وقار عطا کیا گیا ہے۔ …آزاد اور پابند نظموں میں جہاں سیرت کے بیکراں مضامین کا احاطہ کیا گیاہے، وہاں ان کا ہر ہر مصرع اور ہر ہر سطر پیرایۂ غزل لیے ہوئے ہے۔ نعتیہ غزلیں شاعر کی جولانی طبع کی بدولت ایک طرف قصیدہ بنتی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف اُن میں نظم کا تسلسل در آیا ہے۔ نو بہ نو ردیفیں اور زمینیں اس پہ مستزاد ہیں۔ ‘‘
غزل نعت
شعری تجربہ ایک متنوع تخلیقی عمل ہے۔ ضروریاتِ اظہار نے اصنافِ شعر تخلیق کیں اور تنوع وجود میں آیا۔ غزل سے نہ بن پڑی تو بات نظم تک پہنچی، وہی نظم کہیں قصیدہ بن گئی کہیں مرثیہ کی شکل میں ڈھل گئی اور کہیں مثنوی کی خلعتِ فاخرہ میں ملبوس ہو گئی۔ غالباً یہ ادب میں نظریۂ ضرورت کی حقانیت کی مختلف صورتیں ہیں۔ مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نظم میں، مرثیہ ہو، قصیدہ ہو یا مثنوی، تغزل کا گذرممکن نہیں۔ شعری حسن جہاں جہاں نظر آئے گا اس کی تہ میں تغزل کے دھنک رنگ ضرور بکھرے ملیں گے۔ حالیؔ غزل کے بے پناہ شاعر تھے اور مسدس کا کینوس تغزل کے رنگوں سے عاری نہیں۔ مرزا انیس جب مرثیہ نگاری کی معراج کو پہنچتے ہیں تو غزل ان کو کاندھا دیئے کھڑی ملتی ہے۔ مثنوی میں حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام کا تذکرہ کئے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی مگر وہ حفیظ جو غزل میں ملتے ہیں مثنوی شاہنامہ اسلام میں جا بجا ملتے ہیں اور وہیں وہ نعت بھی کہہ رہے ہوتے ہیں حالانکہ مثنوی ایک ایسی صنف ہے جس میں سحر البیان اورزہرِ عشق کی روایت اردو ادب کا تاریخی ورثہ ہے۔
یہ بات رہی نظم کی مختلف صورتوں میں غزل کے تصرف کی۔ یہاں ہمیں ذہن نشین کرنا ہو گا کہ غزل اور نظم اظہار کے دو پیرائے ہیں، دو ہئیتیں ہیں جن کی روح رواں تجربۂ شعریت ہے جس کی تجلی نثر میں بھی جگمگانے لگتی ہے۔ مگر تنقیدی لغت میں شعریت اور تغزل ہم معنیٰ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح تغزل نظم کے وجود میں در آتا ہے اورجب ہم غزل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں قصیدہ جھلملاتا نظر آتا ہے۔ مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ تمام اصنافِ شعر خواجہِ کونین ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں سرنگوں ہو کر ہدیۂ درود و سلام پیش کر کے نجاتِ اخروی کا جواز حاصل کرتی ہیں۔ شعرائے نعت کے ہمراہ یہ سب اصناف بھی اس حقیقت سے آگاہ نظر آتی ہیں:
محسن کاکوروی نے کیا خوب کہا ہے:
ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر نہ قطعہ نہ قصیدہ نہ غزل
مگر تمام اصناف ِشعر میں غزل کے شعراء مقام معراج پر ہیں کیونکہ انہیں غزل کا براّق میسر ہے جو مقامِ سدرہ تک پرفشاں رہتا ہے۔ فیض، احمد فراز اور احمد ندیم قاسمی کی غزل ہو یا حفیظ تائب کی نعت، شعریت اور تغزل کے حوالے سے ایک ہی تہذیبی، ادبی، لسانی اور فنی وسائل و ذرائع سے مستفیض ہوتے نظر آتے ہیں۔
اس گفتار کا مقصد صرف یہ ہے کہ نعت ایک شعری تجربہ ہے جو اپنے تخلیقی عمل کے اعتبار سے غزل ہی کی ایک صورت ہے اور نعت کے وہ شعراء جو غزل گو تھے کمالِ فن کو پہنچے۔ نعت مثنوی، قصیدہ اور مرثیہ، معریٰ آزاد نظم ہر تخلیقی قالب میں موجود نظر آتی ہے مگر فنِ نعت کا خمیر تغزل سے اٹھتا ہے اور نعت کا حسن، حسنِ تغزل میں ملفوف ہے۔ جسے ہم شعریت بھی کہتے ہیں۔ ریاض کی نعت نے جدید غزل کو وہ وسعتِ داماں عطا کی ہے جو اس سے پہلے اردو غزل کے حصے میں نہ آ سکی۔ اگر غزل کو ھیئت اور مخصوص مضامین کے شکنجے سے آزاد ایک تخلیقی تجربہ سمجھا جائے جو محبت کی سرشاری اور لفظ اور لہجے کی موسیقی سے وجود میں آتا ہے تو یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ غزل نے آستانۂ ریاض سے جی بھر کر فیض پایا ہے۔ اردو غزل کا دامن بہت وسیع ہے اور نعت کا کینوس تو زمان و مکاں سے بھی ماوراء ہے۔ اس طرح نعت غزل کے مقابلے میں وسیع تر شعری اور تخلیقی تجربہ ہے مگر یہ دو اصنافِ شعر ہم جنس ہیں اور ایک ساتھ محوِ پرواز ہیں۔ ہاں اگر غزل کی پرواز زمان و مکاں تک محدود ہے تو نعت کی جولا نگاہ ان سے ماوراء ہے۔ اس مقام پر غزل عجز و نیاز میں سر نگوں نظر آتی ہے۔
غزل میں وسائل اظہار کی بدولت ایک لچک پائی جاتی ہے جس سے ایک نفسِ خلّاق غزل کہتے کہتے وادیٔ بطحا کی تخلیقی وسعتوں کا زائر بن جاتا ہے۔ غزل نے اپنے دائرے کو وسعت سے کیونکر آشنا کرنا ہوتا ہے؟ اس لئے کہ یہی اس کا مزاج ہے۔ غزل بطور صنفِ شعر وادیٔ نعت کے حوالے سے اپنا دامن نہیں سمیٹتی بلکہ گریباں چاک، وارفتہ، منزلِ جاناں کی طرف لپکتی ہے کہ یہ تو وہ آستانہ ہے جہاں سے ہر بھکاری زمان و مکاں کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر اٹھتا ہے۔ پھر نعت کے تخلیقی تجربے کو تغزل سے کیونکر متفرق رکھا جائے! غزل اپنے مزاج کی اسی وارفتگی کی بدولت درِ حبیب پر کاسہ بکف ہے کہ اس میں وسعتِ دوراں، دردِ پنہاں، شبِ ہجراں، بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل، اور جدید تر اردو غزل کا وہ سارا علاماتی لائو لشکر جو آج کے دور میں اس کی فتح کا ضامن ہے، اس کے ارتقاء کا سامان کرتا رہتا ہے، جہانِ نعت میں یہ سب کچھ اسے وافر ملتا ہے۔ اسی بنا پر ریاض کے ہاں غزل حسنِ شعریت کا ایک استعارہ بھی ہے۔
ریاض حسین چودھری کا اس صنفِ ادب کے حوالے سے یہی وسیع تر جدید تر اور حقائق پر مبنی وہ فلسفۂ تخلیقِ فن ہے جس کا احساس اُس شعر سے شروع ہوتا ہے جو ریاض نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی نعت تخلیق کرتے ہوئے لکھا اور جو آج تک ان کے احساسِ فن پر محیط ہے۔ آج البتہ اس فلسفے کا تخلیقی اظہار ان کے نعتیہ کلام کے آٹھویں مجموعے کی صورت میں مجسم نظر آتا ہے اور ریاض کا یہ وہ کارنامہ ہے جس سے انہیں تغزلِ نعت میں امامت کا مقام عطا ہوا ہے۔
ریاض کا پہلا شعری مجموعہ ’’زر معتبر‘‘ دیکھیں جہاں تخلیقِ نعت میں احساس تغزل طلوع صبح کی مانند روشن ہے:
آنسوؤں سے فروزاں ہے بزمِ غزل
تلخ ہے شعر کا ذائقہ یا نبیؐ
وہ اپنے فنِ نعت کو غزل ہی سمجھتے ہیں:
کروں میں بھی حنا بندی گلستانِ سخن تیری
غزل کہتی چلے صلِ علیٰ طیبہ کی گلیوں میں
زرِ معتبر میں ریاض ’’اہتمام‘‘ کے عنوان سے لکھی ہوئی نظم میں غزل گو ہیں جس کا مطالعہ ہم کر چکے ہیں۔
احساسِ تغزل کے حوالے سے زرِ معتبر کے درج ذیل اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں:
ورق کو ذوقِ جمال دے گا قلم کو حسنِ مقال دے گا
اسی کا ذکرِ جمیل شہرِ غزل کی گلیاں اجال دے گا
قصیدے سے غزل تک گنبد خضرا کی ہریالی
خزاں نا آشنا کیوں ہو نہ گلزارِ ادب میرا
یہ کیسا رت جگا ہے میری غزلوں کے شبستاں میں
مرے کشکولِ فن میں یہ غبارِ نقد جاں کیا ہے
حشر تک یا خدا کاش ایسا بھی ہو میَں حریمِ غزل کے چمن زار
میں
پھول حبِ نبیؐ کے کھلاتا رہوں فصل عشقِ نبیؐ کی اگاتا رہوں
رزقِ ثناء میں اپنے احساسِ تغزل کی یوں تعریف کرتے ہیں:
کیف میں ڈوبی رہے شہرِ تغزل کی فضا
وجد میں آئے صبا حرفِ دعا سے پہلے
’’ رزقِ ثنا‘‘ سے سرشار’’ متاعِ قلم‘‘ میں بھی ریاض غزل کو خراجِ تحسین پیش کرنا نہیں بھولتے۔ اپنی شعریت کا احساسِ تغزل انہیں ہر وقت دامن گیر رہتا ہے:
سنائے نعتِ پیمبرؐ غزل مدینے میں
سماءِ شعر ستارے اگل مدینے میں
یہ اقتدائے حضرتِ حسّاںؓ کا دور ہے
دم سادھ لے سخن کی گلی میں غزل ذرا
نعت نگاری کے عملِ تخلیق پر ریاض اپنی مفکّرانہ شعریت کی نظر ڈالتے ہوئے رزقِ ثناء میں ہمیں بھی یہ آگہی عطا کرتے ہیں کہ فنِ تخلیق کا شاہکار’’ نعت‘‘ ہے کیا!
نعت کیا ہے لب بہ لب طیبہ کے میخانے کا نام
نعت کیا ہے آنسوئوں کے رقص میں آنے کا نام
نعت کیا ہے لوحِ جاں پر پھول بکھرانے کا نام
نعت کیا ہے انؐ کی چوکھٹ پر مچل جانے کا نام
نعت کیا ہے رات کے پچھلے پہر کا انکسار
نعت کیا ہے اک عطائے رحمتِ پروردگار
دل کی ہر دھڑکن کہے یا مصطفیٰ تو نعت ہو
حکم دے میرے قلم کو جب خدا تو نعت ہو
یہ ہے وہ نعت جو ریاض لکھتے ہیں۔ اس نعت سے غزل کتنے فاصلے پر خیمہ زن ہے اس پیمایش کے لئے ریاض کے جنونِ نعت کے ایسے ادراک کی ضرورت ہے جو اس نکتے کو پا سکے کہ ریاض کا لاشعور ان کے اپنے شعورِ ذات کی زد میں ہے جس کا وجود یومِ الست سے پہلے ممکن نہیں اور جس کی انتہا ماورائے حشر ہو نہیں سکتی۔ اور ریاض کو اپنی نعت کا شعورِ الست بھی حاصل ہے اور اس نعت کا روزِ حشر بھی انہیں صاف دکھائی دیتا ہے۔ اور نعت کا یہ وہ شعور ذات ہے جو ماضی و حال میں آج تک کسی کے حصے میں نظر نہیں آتا۔ یہ انفرادیت ریاض کی نعت اور ذات کو وجدانی طور پر عطا ہوئی ہے۔
روزِ الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا
جب کہ ’’رزقِ ثنائ‘‘ میں’’ آرزو‘‘ کے عنوان سے نظم میں میدانِ محشر کا نقشہ کھینچ کر اپنے شعورِ نعت کی چاندنی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم ﷺ ریاض کو اپنے پورے کنبے کے ہمراہ اذنِ حاضری عطا فرما رہے ہیں :
یہ آرزو ہے سرِ حشر آپؐ فرمائیں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ ہمارے شاعر کو
چراغِ عشق سجا کر ہتھیلیوں پہ ریاض
کسی کو نعت ہماری سنا رہا ہو گا
کوئی غزل گو شاعر علامتی پیرائے میں اظہار کے بغیر جدید معیاری غزل تخلیق نہیں کر سکتا۔ ’’غزل کاسہ بکف‘‘ میں ریاض شعر کہتے ہوئے احساسِ تغزّل سے آزاد نہیں ہو پائے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
حلقۂ شعر و فن کی ہوائو سنو پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
میرے لب پر مچلتی دعاؤ سنو! پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
قافلے خوشبوؤں کے گزرتے رہے جمگھٹے روشنی کے اترتے رہے
رحمتِ مصطفیٰ کی رداؤ سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
اور ریاض کی یہ نعت تادمِ آخر جاری رہی جبکہ بقول ان کے باذن اللہ وہ بعد حشر بھی نعت ہی لکھتے رہیں گے۔ اور غزل ان کے درِ نعت پر کاسہ بکف ہی رہے گی۔ اس دوامِ نعت کے لئے عالمِ دنیا، عالم برزخ اور روزِ محشر کی کوئی قید نہیں:
محشر کے دن بھی نعت حوالہ بنی ریاضؔ
محشر کے دن بھی حرفِ سخن محترم ہوا
نظم نعت
جناب حفیظ تائب’’زرِ معتبر‘‘ کے پیش لفظ ’’پیشوائی ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ریاض حسین چودھری کی نعت کا اسلوب اردو شاعری کی تمام تر جمالیات سے مستنیر ہے اور اِسے جدت و شائستگی کا معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوں ’زرِ معتبر‘ اردو نعت کی روایت میں ایسا عہد آفریں اضافہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ ‘‘
ریاض کے اٹھارویں نعتیہ مجموعے ’’نظمِ نعت‘‘ کے علاوہ ان کے جملہ نعتیہ مجموعے غزل اور پابند اور آزاد نظم کی ہیئتوں میں لکھے گئے ہیں جبکہ زیادہ تر کلام غزل کی ہیئت میں ہے۔ چونکہ ریاض اپنے کلام کے شعری اور فنی تشخص کے بارے تخلیقی فکر کے مالک تھے اس لئے انہیں نعت کے اعلیٰ مقام و مرتبہ کے حوالے سے غزل کی ہیئت کا احساس ہمیشہ دامن گیر رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض کا آٹھواں نعتیہ مجموعہ ’’غزل کاسہ بکف ‘‘ ایک چشم کشا تخلیقی ریاضت ہے جس سے نعت کے ادبی، فنی اور تخلیقی مقام کا تعین یوں ہوتا ہے جیسے درِ حبیب ؐ پر کیفِ حضوری نصیب ہو جائے۔ پختہ اور زیبا غزل لکھنے والے ریاض جب نعت لکھنے لگے تو اوجِ فن کی اُن بلندیوں تک جا پہنچے جہاں انہیں غزل نعت کی بارگاہ میں کاسہ بکف دکھائی دینے لگی۔ یہ احساس انہیں اِس شدت سے ہوا کہ اپنے مجموعۂ نعت کا نام ہی ’’غزل کاسہ بکف ‘‘ رکھ دیا۔
مگراُن کے باطن میں تخلیقِ نعت کا جو چشمہ ابل رہا تھا، اردو ادب کی کون سی صنف و ہیئت اُس کے پھوٹنے کی شدت کی متحمل ہو سکتی تھی، اِس کا اندازہ خود تخلیق کار کو بھی نہیں ہو رہا تھا۔ اُن کی اِس تخلیقی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے مئی 2002 میں شائع ہونے والے پانچویں نعتیہ مجموعے ’’کشکولِ آرزو‘‘ کے تعارف میںپروفیسر عبد العزیز لکھتے ہیں:
’’حقائقِ حیات کے تنوّع، حوادثاتِ زمانہ کی حشر سامانیوں اور انسان کے نفسِ خلّاق کی حسّاسیت کے فروغ نے گریباں چاک کرنے کے بجائے نمودِ فن کے تتبّع میں قبائے شعر ہی کو وسعتِ داماں سے ہمکنار کر دیا اور یوں عملِ تخلیق کا دریا، حسنِ شعر کی جملہ رعنائیوں کو اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے اچھل کر سمندر ہو گیا اور اس طرح حُسنِ شعر کے نئے معیار وجود میں آ گئے۔ ‘‘
دراصل ریاض کے اندر نعت کے تخلیقی سوتے اُن کے بس میں نہ تھے۔ ازل سے نعت گوئی کے منصب کی بدولت وہ نعت جبلّتاً لکھتے۔ اِسے وہ اپنے کلام میں کئی مقامات پر اپنے لئے ازلی حکمنامہ قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ انہیں قدرت نے حسنِ ادب اور حسنِ تخلیق کی لطافتوں کا وہ شعور عطا کیا ہوا تھا جس کے تحت لکھتے ہوئے اُن کے لئے ہیئت کا انتخاب ایک لاشعوری تجربہ تھا۔ یوں انہوں نے صنفِ نظم میںبھرپورنعت لکھی اور نظم کی ہر ہیئت میں لکھی۔ نظمِ نعت اُن کا اٹھارواں مجموعہ ہے جو ایسی ہی لازوال تخلیقی کاوشوں پر مشتمل ہے۔
یہاں اسلوبِ نظم کے حوالے سے جناب حافظ محمد افضل فقیر کے وجدان افزا مضمون’’ نعت کا مثالی اسلوبِ نظم ‘‘ کا ذکر ضروری محسوس ہوتا ہے۔ یہ مضمون صبیح رحمانی کی مرتّبہ کتاب ’’اردو نعت کی شعری روایت ‘‘ میں چھپا ہے۔ اُن کی فکر انگیز اور بصیرت افروز تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
’’دیگر اصنافِ سخن کی طرح نعت اور نعت گو کے باہمی ربط کا تجزیہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاعر کے کردار کی پاکیزگی، صفائے باطن اور اخلاصِ عمل کی تاثیرات اس کے پیکرِ نعت میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ایک صاحبِ ذوق عارف کسی صنفِ سخن میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرے، متصوّفانہ نظریات سے اس کا کلام لبریز نظر آئے گا۔ پھر صنفِ نعت تو باطنی ارادت کی عظیم ترین ترجمان ہے۔ ایک مرتبہ مولانا غلام قادر گرامی نے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو لکھا کہ حضرت شاہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہ کی زمین میں شعر لکھنے کے لئے اُن کا وجدان اور تقویٰ کہاں سے لاؤں؟معلوم ہوا کہ عظمتِ تقویٰ اور بلندیٔ کردار شہپارہ نظم پر اس طرح متجلّی ہوتے ہیںکہ پھر اس کی تقلید بھی از قبیل محالات ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر دیگر نعت گو حضرات بھی ہیں، ان کی کاوش بھی قابلِ ہزار تحسین ہے کہ اُن کے سینوں میں اقرارِ توحید و رسالت موجود ہے، جو معارفِ نعت کا مخزن ہے۔ پھر اس کے ساتھ احساس گنہ گاری بھی ہے جو توبہ و انابت کی اصل ہے اور احساسِ ندامت ایک ایسا لامعہ نیاز ہے جس کی سرحدیں الطافِ ذاتِ لم یزل کو مماس ہیں۔ ویسے بھی ہر کلمہ گو پر واجب ہے کہ اپنے ولیٔ نعت کا سپاس گزار رہے۔ ہر وہ امتی جس کی زبان یا قلم سے کوئی مدحیہ کلام بہ صورتِ نظم و نثر صادر ہو ایک سپاس گزار ناعت ہے۔ ‘‘
ریاض کے ہاں نعت کی تخلیقی شخصیت تخلیقِ غزل سے بلند تر ہے۔ یہاں مجھے ریاض کے نعتیہ مجموعے ’’کشکول آرزو‘‘ کا پیش لفظ ’’نعت میں تغزّل اور شعریّت کی ایک وہبی صورت‘‘ تخلیقی تجربے کی نوعیت کے حوالے سے اہم نظر آتی ہے اور جناب حاٖفظ افضل فقیر نے بھی اسی کا تجزیہ کیا ہے۔ اُن کے نزدیک وہبی صورت اُس وقت تشکیل پاتی ہے جب شاعر کے کردار کی پاکیزگی، صفائے باطن اور اخلاصِ عمل کی تاثیرات اُس کی تخئیلِ شعری کو لغوی وجود عطا کریں۔ تب تقویٰ اور اخلاص کی تجلی ان کی تراکیب و استعارات کو اظہار کے جگنو ؤں میں اتار دیتی ہے۔ اسے وہ معارفِ نعت کا مخزن قرار دیتے ہیں۔ تخلیقی تجربے کا خمیر تقویٰ، عظمتِ سیرت اور انابت و نیازمندی کے نور سے اٹھتا ہے جسے تغزّل اور شعریّت کی ایک وہبی صورت بھی کہا گیا ہے اور جو اپنا پیرہن خود ڈیزائن کرتا ہے۔
ریاض حسین چودھری پریہ تجلیات آبشار بن کر اترتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ یہ آبشار مدینے کی ہواؤں کے اثر سے بکھر کر اظہارِ تمنا کی پھوار بن کر ان کی شعری لغت کے باطن کو منور کرتی ہے۔ انوار کی اس پھوار کے نزول سے ریاض نے جہاں نعت کے حضور غزل کو کاسہ بکف پایا وہاں اسلوبِ نظم کی بو قلمونیوں کو بھی اپنی بساطِ نعت میں حالتِ وجد میں سمیٹا ہے۔ انہوں نے نعت کی باطنی نمود کو نظم کی ہر ہیئت کا پیرہن دیا ہے۔ پابند، معریٰ اور آزاد نظم سے آگے انہوں نے وجد انگیز گیت اور ماہیے بھی تخلیق کئے ہیں۔ اٹھارویں مجموعے ’’نظمِ نعت ‘‘ میں کئی مقامات پر جہاں وہ گیت لکھنے لگتے ہیں وہاں حفیظ جالندھری پوری آب و تاب کے ساتھ ان کے ساتھ براجمان نظر آتے ہیں۔ ریاض کا یہ تجربہ ہر لحاظ سے ایک’’ بھرپور ‘‘تجربہ ہے۔
یہاں ان کے اٹھارویں مجموعے ’’نظم نعت‘‘ سے ایک نعتیہ ماہیئے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
سرکار بلائیں گے
طیبہ کے گلستاں میں
ہم لوگ بھی جائیں گے
ہم جان لٹائیں گے
طیبہ کی ہواؤں کو
سینے سے لگائیں گے
دامن کو بچھائیں گے
آقاؐ جی کی چوکھٹ پر
یہ نعت سنائیں گے
اک دیپ جلائیں گے
اس نام کی خوشبو کو
ہر دل میں بسائیں گے
گھر بار سجائیں گے
اک روز مدینے کے
سلطان بھی آئیں گے
اسی طرح وہ خوبصورت گیت بھی لکھتے ہیں۔ ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
کرم کیجئے، کرم کیجئے، کرم بارِ دگر آقاؐ
کبھی ہم بے نواؤں کو ملے حکمِ سفر آقاؐ
نظر آقاؐ، مسلسل جاں نثاروں پر نظر آقاؐ
کوئی جگنو، کوئی تتلی، کوئی نغمہ، گہر آقاؐ
دعاؤں، التجاؤں میں اثر آقاؐ اثر آقاؐ
مدینے کا تصور ہو ہمارا ہمسفر آقاؐ
کرم کیجئے، کرم کیجئے، کرم بارِ دگر آقاؐ
کبھی ہم بے نواؤں کو ملے حکمِ سفر آقاؐ
مدینے کی تڑپ میں رات دن آنسو بہاتے ہیں
درودوں کو لبِ تشنہ پہ ہر لمحہ سجاتے ہیں
در و دیوار طیبہ کو دل و جاں میں بساتے ہیں
کرم کی منتظر ہے آج شاخِ بے ثمر آقاؐ
کرم کیجئے، کرم کیجئے، کرم بارِ دگر آقاؐ
کبھی ہم بے نواؤں کو ملے حکمِ سفر آقاؐ
اردو نظم اور اس کا ارتقائی سفر ریاض حسین چودھری کو نعت کی تخلیق کے حوالے سے ورثے میں ملا۔ اردو نظم کا ایک بحرموّاج ان کے تحت الشعور اور لاشعور کی پہنائیوں میں ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے اور حرف و بیان کی ناؤ کو ساحل اظہار پر اتارتا چلا جاتا ہے۔ ان کی ’کلکِ مدحت‘ ان کی تخلیق کاری میں عالمِ کیف میں رہ کر بہارِ اظہار کی ترتیب و تزئین کرتی ہے۔ آزاد نظم، نظمِ معریٰ، گیت، ماہیہ، سانٹ، موڈ کے مطابق جو ہیئت موزوں ہو جائے ریاض مدحت نگاری کی ناؤ کو قلزمِ اظہار میں اتاردیتے ہیں جس کے بعدبہتے چلے جانے کا نشہ ان کے بادبانِ حرف و صوت کو اڑائے چلاجاتا ہے۔
اکائی : نئی ہیئت نظم کا تعارف
ریاض حسین چودھری نے نظم کی موجود ہیئتوں کو وسعت دیتے ہوئے ایک نئی صنف کا بھی آغاز کیا اور اسے ’’اکائی‘‘ کا نام دیا۔ یہ ایک مصرعہ پر مشتمل شعری تجربہ ہے جو اختصار اور جامعیت کی یکجائیت کی وجہ سے جادو اثر ہو گیا ہے۔ ریاض کے آخری مجموعۂ نعت کا نام بھی ’’اکائی‘‘ ہے۔
یک مصرعی نظم شاعری کی ایک جدید قسم ہے۔ اس کی ابتدا چترال سے ہوئی۔ رحمت عزیز چترالی نے پہلی یک مصرعی نظم 1966 میں لکھی اور اس کے بعد 2010 میں رؤف خیر اور دیگر پاکستانی شعرا نے بھی یک مصرعی نظمیںکہیں۔ اردو اور کھوار زبان میں سب سے پہلی یک مصرعی نظمیں رحمت عزیز چترالی نے کہیں۔
ادب میں مختصر سے مختصر ترین ہئیتوں کا سفر ہمیشہ سے جاری ہے۔ مختلف اصناف و اسالیب کو اختصار کے ساتھ قارئین کے سمنے پیش کرنا ایک منفرد فن بنتا جا رہا ہے۔ مختصر کہانیوں اور افسانوں کے بعد سو الفاظ کی کہانی نے رواج پایا اور دھرے دھیرے بات پچاس اور پھر بیس لفظوں کی کہانی تک جا پہنچی۔
یک مصرعی مگر جامع مفہوم کی حامل شاعری کے بانی شاید سعود عثمانی ہی ہیں۔ ان کی ایک یک مصرعی نظم ہے : ’’دل کا اپنا دماغ ہوتا ہے‘‘ یہ ایک خوبصورت کاوش ہے۔ عابی مکھنوی کی ایک یک مصرعی نظم یو ںہے : ’’زوال اپنے عروج پر ہے‘‘۔
یہ تویک مصرعی نظم کا ایک مختصر تعارف ہے۔ اردو ادب میں اس کی ترویج میں ابھی وقت لگے گا۔ سلطانِ نعت ریاض حسین چودھریؒ نے بہرحال اردو نعت میں یک مصرعی نظم کی ابتدا کی اور اس کا نام اکائی رکھا۔ ریاض کی اکائیاں نعت کی جملہ خصوصیات کا مرقع نظر آتی ہیں۔ وہی وارفتگی، خود سپردگی، شبابِ اظہار، خوبصورت اور جامع علامات اور رعایتیں، تشبیہات اور استعارے جو ریاض کی غزل نعت اور نظم نعت کی پہچان ہیں اور قطعات اور ثلاثیوں میں تجلی بار ہیں ان کی اکائیوں میں بدرجہ اتم نمو پذیر ہیں۔ ان کا اظہار دل کو اپنی گرفت میں کیا لیتا ہے کہ چشمِ نم سے تحسین ٹپکنے لگتی ہے۔
میں یہاں نمونے کے طور پر ان کی اکائی ’’فرشتۂ اجل سے التماس ‘‘ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔
ذرا ٹھہرو!
ندامت کے مَیں اشکوں سے وضو کر لوں
ذرا ٹھہرو!
مَیں اپنی التجائیں رکھ لوں سجدوں میں
ذرا ٹھہرو!
سجودِ آخری میری جبیں میں ہیں
ذرا ٹھہرو!
مطافِ کعبۂ اقدس میں ہے شاعر
ذرا ٹھہرو!
دعائیں ملتزم پر آبدیدہ ہیں
ذرا ٹھہرو!
مجھے فرصت ہے کب آقاؐ کی مدحت سے
ذرا ٹھہرو!
مَیں ہونٹوں پر درودِ آخری لکھ لوں
ذرا ٹھہرو!
مدینے کی مَیں گلیاں چوم لوں شب بھر
ذرا ٹھہرو!
قلم کو ساتھ لے لوں مَیں دمِ رخصت
ذرا ٹھہرو!
ہیں مصروفِ ثنا سب دھڑکنیں دل کی
ذرا ٹھہرو!
عمامہ باندھ لوں سر پر غلامی کا
ذرا ٹھہرو!
خدا حافظ مَیں کہہ لوں اپنے بچوں کو
ذرا ٹھہرو!
کفن لے لوں غبارِ راہِ طیبہ کا
ذرا ٹھہرو!
مدینے سے ہوائیں چل پڑی ہوں گی
ریاض جدید نعت نگاری کی امامت کا عمامہ باندھ کر اکائیوں کا حسن اظہار لوح و قلم کے سپرد کر کے فرشتۂ اجل کے ساتھ چل دئیے، یہ کہتے ہوئے کہ :
مَیں اکثر سوچتا رہتا ہوں اے کونین کے مالک
تری جنت مدینے سے کہاں تک مختلف ہو گی