غزل کاسہ بکف (2013)
’’غزل کاسہ بکف‘‘ ریاضؔ حسین چودھری کا آٹھواں نعتیہ مجموعہ ( ۱۲؍ ربیع الاوّل ۱۴۳۴ھ کی نسبت سے 25 جنوری 2013ء )’’رفیقانِ مدینہ کے نام جن کی حُبِّ رسول سے معمور سنگت نے سوز و گداز کی نئی کیفیات سے ہم کنار کیا۔‘‘ اس کتاب پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں میں بشیر حسین ناظمؔ، شیخ عبدالعزیز دباغ،ؔ ریاضؔ حسین چودھری، ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری، ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی،ؔ ڈاکٹر سلیم اخترؔ، احمد ندیمؔ قاسمی، حفیظ تائبؔ اور ڈاکٹر ریاض ؔمجید کے نام شامل ہیں۔ شیخ عبدالعزیز دباغ لکھتے ہیں: ’’ان کا قلم ان کا مصاحب ہے مشیر ہے اور وفا شعار دوست کی طرح ان پر نچھاور ہوتا رہتا ہے، رعائیتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ریاضؔ کے سامنے رکھتا ہے اور وہ ان کو سُرمہ کی طرح چشمِ قلم میں لگا کر اس کی آبِ بصیرت کو تیز تر کر دیتے ہیں۔ ریاض جس لفظ کو اُٹھا کر جس لفظ کے ساتھ چاہیں جوڑ لیں ، معنوی حُسن کی سیج سجتی ہی چلی جائے گی۔‘‘
فہرست
پیش لفظ (شیر حسین ناظم)
لکھّے عروسِ شہرِ غزل، نعتِ مصطفی (شیخ عبدالعزیز دباغ)
غزل کاسہ بکف ساکت کھڑی ہے اُنؐ کی گلیوں میں (ریاض حسین چودھری)
یا قادر مطلق
میں ہوں کیا، میری اوقات کیا، حرفِ نامعتبر
ضمیر بولیں پیمبرؐ کے فیصلوں کی طرح
سرکارؐ کبھی اپنے ثنا خواں پہ نظر ہو
پرچم اڑے گا اور بھی اونچا حضورؐ کا
آج بھی عرشِ معلیٰ پہ گئی ہیں آنکھیں
نعتِ نبیؐ کا مصرع تنہا بھی روشنی
اشکوں میں پوری رات رہی بھیگتی ہوا
ہوس کاروں نے پر بھی نوچ ڈالے فاختاؤں کے
ثنا کے جگنؤوں کی ٹولیاں بستی سے گزری ہیں
درِ نبیؐ پہ ہے شاداب موسموں کا ہجوم
آتے ہیں بہت یاد رفیقانِ مدینہ
اندر کے بھی انسان کی بیدار ہیں آنکھیں
روضے کے سامنے ہو مری خامشی درود
ثنا میں محو تھے شام و سحر، کل شب جہاں میں تھا
میلہ سا روشنی کا لگے بعدِ حشر بھی
صحنِ جاں میں برستی گھٹاؤ! سنو، پھول کھلتے رہے نعت ہوتی رہی
حروفِ نعت کی اک آبشار دے سورج
موسم تمام تر مرے اُن ؐ کی گلی کے ہیں
تمام رات برستے ہیں چشمِ تر کے سحاب
ہر لمحہ بجا لائے گا آدابِ مدینہ
کاسہ بکف ہیں آپ کے در پر ازل سے ہم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
میرے قلم کو چومتے لفظو! ادب، ادب
محمدؐ مصطفی کو حاصل کون و مکاں لکّھوں
سرکارؐ نے کرم کی سب کو ردائیں دی ہیں
روشن ضمیر گنبدِ افلاک کا ملے
مرے بچوں کے کل پر یا نبیؐ ابر کرم برسے
اللہ کے بعد صرف ہے چانن حضورؐ کا
خیالِ خلدِ مدینہ بسا کے بیٹھا ہوں