تحدیث نعمت (2015)
’’تحدیثِ نعمت‘‘ ( ۱۲؍ ربیع الاوّل ۱۴۳۷ء مطابق 24؍ دسمبر 2015ئ) ’’مرادِ رسول (ﷺ) سیّدنا حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے نام‘‘ سے منسوب ہے۔ اس کتاب پر صرف ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کی رائے ’’مدحت نگارِ رسول کا ارمغانِ عجزو نیاز‘‘ کے عنوان سے موجود ہے جب کہ گزشتہ احباب کی مختصر آراء بھی فلیپ کی زینت ہیں۔ ڈاکٹر تنولی لکھتے ہیں: ’’ریاض حسین چودھری کی زندگی میں جہاں عشقِ رسول کی تپش ہے وہاں بارگاہِ رسالت کے ادب نے عجز کا رنگ بھی پیدا کردیا ہے۔ اطاعتِ نبوی کے جذبے نے شاعر کو جو اُجالا دیا وہ اس کے چہرے کا نور بن گیا۔‘‘ ایک خوبصورت شعر دینے کی روایت بھی اس کتاب میں موجود ہے۔ شاعرِ خوش نوا کا ہر لمحہ سرکارِ دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت سے مہکتا نظر آتا ہے۔امنِ عالم کے لیے جو حقیقی نصاب کی تلمیح آخری خطبہ سے منسوب کی ہے اس کا تو جواب ہی نہیں ہے۔ مجھ سے پوچھا تھا کسی نے امنِ عالم کا نصاب آخری خطبہ قلم سے خود بخود لکھا گیا شاعری کے نقطۂ آغاز سے پہلے ریاض حسین چودھری کا یہ شعر بھی دلوں کے تاروں کو چھیڑ رہا ہے۔ شاعر نے نعت کی قدامت کو عالمِ ارواح سے پیوست کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے جس سے سرِمو انکار ممکن نہیں۔ یہاں قلم کا رقص مزہ دوبالا کر رہا ہے۔ عالمِ ارواح میں بھی رقص کرتا تھا قلم یہ وفورِ نعت میری روح کے اندر کا ہے
فہرست
سرورق
ترتیب
اِظہاریہ: مدحت نگارِ رسول ﷺ کا ارمغانِ عجز و نیاز
حمدِ ربِّجلیل: تُو خدائے روز و شب ہے تو خدائے ذوالجلال
دعا: کرم کر یا الٰہی! سیّدِ ابرارؐ کے صدقے
حمد و نعت: آثارِ قلم میرے خدا اور طرح کے
اوڑھ لی کلکِ ادب نے خوشبوئے طیبہ کی شال
دو نعتیہ: امتِ سرکش کی آقا ؐ سرکشی ہو منتقل
سلام:سر جھکاتی قریۂ دل کی فضائوں کو سلام
تحدیثِ نعمت: مدینے کے گلی کوچوں کی رفعت دیکھ آیا ہو
ثنائے حضورؐ:حسنِ د لآویز کب یہ دودھ کی نہروں کا ہے
رہے مصروف میری چشمِ تر اُن ؐ کی تلاوت میں
آپؐ کے انوار کے کب ہے مماثل روشنی
مخزنِ عِلم و ادب ہیں سب خلیفانِ رسولؐ
آئنہ خانے میں چشمِ تر کی حیرانی ہوں مَیں
آپؐ کی کون و مکاں میں جلوہ فرمائی کہ بس
چمن زارِ ثناتائیدِ ربّانی کا حامل ہے
راستہ مَیں نے طیبہ کا پوچھا مگر سامنے آکے جنت کھڑی ہو گئی
آپؐ کی ذات بے مثال آپ ؐ کی بات لاجواب
گونجا ہَے اُنؐ کی نعت کا نغمہ، چمن چمن
خاک میں لپٹی ہوئی خاکِ پریشاں بھی عزیز
خلدِ بریں کا موسم طیبہ میں پرفشاں ہَے
در پر حضورؐ، رکھّی ہوئی چشمِ تر ہوں مَیں
غلاموں پر کرم سرکارؐ کے، شام و سحر ہوںگے
نغمۂ صلِّ علیٰ کا نور دیواروں میں ہَے
آپ سرکارؐ کا ایک مہمان ہوں، اس لئے ربّ کی سب نعمتیں مل گئیں
ابرِ کرم ہو میری دعائوں کا پیر ہن
پیکرِ رُشد و ہدایت، پیکرِحُسن و جمال
آپؐ ہی رونقِ صحنِ جاں ہیں، آپؐ ہی زینتِ دوجہاں ہیں
شہرِ طیبہ میں مری خاک اڑا دی جائے
پڑھ رہی ہیں نعتِ سرکارِؐ مدینہ ، ساعتیں
ریشمی لمحات کے لب پر ہَے خوشبو نعت کی
اللہ کی رحمت کی برسات کی رم جھم ہے
چشمِ تر کو آج بھی اشکوں کی طغیانی ملے
امیرِکارواں مجھ کو بٹھا لے تُو سفینے میں
نیا شعور، صدی بھی نئی، ہیں خواب نئے
درِ حضورؐ سجاطشت روشنی کا ہَے
ہے مقدّر میں مرے حرفِ ادب، حرفِ دعا
یارب! ہو مقدّر میں زنجیر مدینے کی
حضورؐ دامنِ عرضِ ہنر میں پھول کِھلیں
ہر ذرہ ہَے عظمت کا مینار مدینے میں
پیرہن میری ثنا گوئی کا ہَے نجمِ سحر
کبھی کلیوں کی بارش ہو، کبھی پھولوں کی بارش ہو
چراغِ نعتِ پیمبرؐ جلیں گے مَحشر تک
مَیں جدائی کے ہنڈولوں میں ہوں پیہم آقا ؐ
جز آپؐ کی گلی کے میرا نہیں ٹھکانہ
دعا فرمائیے آقاؐ ، مری بگڑی بھی بن جائے
خدا کے ساتھ فرشتے درود پڑھتے ہیں
سرورق پر نام اُنؐ کا جب کبھی لکھتے ہیں ہم
جس کی ممکن ہی نہیں کوئی لگائے قیمت
شہرِ خنک کی رہتی ہَے ہر وقت جستجو
کرم کا ابر میرے خشک کھیتوں پر بھی برسے گا
سلام آپ ؐ پہ دائم ہو ربِّ اکبر کا
کب قلم میرا جلے خیموں کے انگاروں میں ہے
دکھوں کی برکھا میںکب سے بھیگا ہوا بدن ہے، حضور آقاؐ
رہتا ہے کُھلا اُنؐ کا بازار مدینے میں
آپؐ کے در پہ حاضر ہوں مَیں یانبیؐ
اپنی ہر مخلوق پر انوار کا سایہ کیا
موجوں کی سرکشی نے بگڑی ہوئی بنادی
قلم، دوات، ورق کہکشاں میں رکھتے ہیں
کلک ِتحسینِ ادب کی بیکرانی ہوں حضورؐ
رعایا آپؐ کی ہوں مَیں نہیں دامن مرا خالی
مدینے کے در و دیوار سے ہم دوستی کر لیں
آپؐ کے دربار میں دن کب گزارے ہیں بہت
مدحت کے پھول شاخِ قلم پر کِھلے رہیں
سحابِ آرزو کے ساتھ نکلا ہوں مدینے میں
نعتِ سرکار ؐ کے رتجگوں میں رہے
آپ کا نورِ مقدّس نور کے پردے میں ہَے
عافیت سرتا قدم حرفِ دعا ہَے آقاؐ
آج بھی کھولی ہوائوں نے کتابِ انقلاب
مصر کے بازار میں ہوں لاکھ دولت کے چراغ
حروفِ نو کا عمامہ ہَے رحمتوں کا سحاب
کل بھی تھی اور آج بھی ہَے میری آرزو
مجھے کیا غم اگر ہے چار جانب شام کا لشکر
قلم مقیم ہیں آقاؐ کے ترجمانوں کے
ادب سے سر جھکائے آسماں سے کہکشاں آئی
رعونت دفن کر پہلے، پھر آ، آقاؐ کی چوکھٹ پر
شہرِ آقاؐ کی مجھے تازہ ہوا دے خوشبو
حرفِ آخر ہیں کتابِ انبیا میرے حضور ؐ
آئنہ خانے میں رکھّے جائیں گے حیرت کے پھول
سرکشی پر ہیں آمادہ پیر و جواں، اس طرف بھی نگاہِ کرم مہرباںؐ
خدا سمیٹ دے پھر فاصلہ مدینے کا
ملی حُبِّ نبیؐ اہلِ نظر کے آستانوں سے
ہم پر ہوئی ہے جبرِ مسلسل کی انتہا
پھر مرے قَصرِ تخیل کا دریچہ ہَے کُھلا
کھڑے ہیں سر کو جھکائے تمام نوکر بھی
گدائی کا شرف حاصل سرِبازار ہے مجھ کو
سامنے گنبدِ سرکارؐ کا منظر ہو گا
پیکرِدلنشیںؐ اے ستارہ جبیںؐ، کوئی تجھ سانہیں، کوئی تجھ سانہیں
یانبیؐ، اپنی غلامی کی مجھے دستار دیں
آقائےؐ مدینہ ہی لجپال ہمارے ہیں
خوش نصیبوں، خوش مزاجوں، خوش خصالوں کا ہجوم
نقوشِ پا فروزاں ہیں نبیؐ کے
آپؐ ہیں ماہِ عرب ، ماہِ عجم، ماہِ تمام
کیا بات اُس گلی کے ہَے حسن و جمال کی
دلکش و شاداب موسم گنبدِ اخضر کا ہے
حدودِ قریۂ عشقِ نبیؐ میں رہتا ہوں
قطعات: قلبِ خوش بخت میں جذبات کے لشکر رکھیّ
عطائوں کے جزیرے میں محبت کا خزینہ دے
چراغِ نعتِ پیمبرؐ جلا رہے یا رب!
رہتے ہیں ہم تو گنبدِ خضرا کی چھائوں میں
کرنوں کے پھول رکھ کے ہوائوں کے ہاتھ پر
چراغ بانٹنے نکلے ہوا مدینے میں
بارش ترے کرم کی کچھ اتنی شدید تھی
یہ اضطراب سا کیسا ہے، یارسول اللہؐ
طیبہ کی سَمت جاری سفر روشنی کا ہے
مرا مکان بھی ہَے خوشبوئوں کے دامن میں
ثنائے پاک کے گجرے ہوں میرے ہاتھوں میں
بہارِ ابرِ کرم کو تلاش کرتا ہوں
جو صرف نعت لکھے وہ قلم تلاش کرو
خدا کا شکر ہَے طیبہ کے مرغزاروں سے
کیا مری اوقات، کیا میرا قلم، میرے حروف
منتظر رہتا ہوں سارا سال مَیں اس روز کا
عالمِ کیف میں سب اشک ہمارے ہیں ابھی
خوشبوئو! جھوم کے تم میرے قلم کو چومو
رعنائیِ خیالِ پیمبرؐ سے رات دن
کتابِ جاں میں حروفِ وفا سجائوں گا
اذنِ ثنا ملا تو فرشتے بصد خلوص
آنسو ہیں جس قدر وہ سپردِ قلم کریں
مرے خدا مرے نطق و بیاں کو دے توفیق
کرم وہ بھی مسلسل آپؐ فرماتے ہیں سائل پر
سرگوشیاں سنی ہیں ہوائوں سے آج بھی
حضورؐ شامِ عزیباں مرے افق سے ڈھلے
کرم کا یہ دفینہ ہے، یہ رحمت کا خزینہ ہے
نہ لوحِ جاں پہ کبھی بھی بجھارتیں لکھّے
کتنا ہَے شاندار بڑھا پا مرا ریاضؔ
قدم قدم پہ خیابانِ آسمانی ہے
ماریہ کے واسطے ٹھنڈی ہوا میرے نبیؐ
طیبہ نگر کے سب خس و خاشاک دے مجھے
لفظ و بیاں کے جاہ و حشم کومَیں کیا کروں
رہے گا پیشِ نظر روضۂ نبیؐ کا جمال
ہم محبت کے گھنے جنگل میں رہتے ہیں ریاضؔ
جس میں نہیں غبارِ مدینہ کی روشنی
مکروہ ساعتوں کے ہیں لشکر گلی گلی
کب سے آزردہ بیٹھا ہوا ہَے سرِرہگذر
وجد کے عالم میں رہتے ہیں در و دیوار بھی
روشن ہیں کئی چاند مرے حرفِ جلی میں
تیرہ شبی کے خوف سے یکسرہوں بے نیاز
کب سے افسردہ ہَے شاعرِ بے نوا
چاند تاروں کی دہلیز پر آج بھی
چرچا ہَے کائنات میں طیبہ کے پھول کا
حشر میںنعت ِپیمبرؐ کا شبینہ کم نہیں
دیارِ عشق کی پہنائیوں میں رہتا ہوں
جوارِ گنبدِ خضرا کی دلکشی ہو عطا
دو قدم چلنا بھی مشکل ہَے مرے آقا حضورؐ
پیش منظر میں رہے، یاربّ! خیابانِ نبیؐ
سانسوں میں تتلیوں کا رہتا ہے رقص جاری
ہر بیاضِ نعت رکھی ہَے قرینے سے ریاضؔ
حضورؐ کتنے عو ارض بدن سے لپٹے ہیں
ثلاثی: زیرِلب، قدمَین کی جانب درِسرکارؐ پر
اس کے ہونٹوں پر اُگی ہے سرمدی پھولوں کی فَصل
آصبا! میری بیاضِ نعت کو سر پر اٹھا
سرکارؐ، میرے دستِ طلب میں ہو روشنی
میری سانسوں میں گرہ پڑنے لگی ہے آج بھی
جس قلم نے صرف لکھنا تھی پیمبرؐ کی ثنا
لمحے ہیں اضطراب کے گھر میں مرے مقیم
آج کا انساں گرفتِ ناروا میں ہَے حضورؐ
پہلے ورق ورق پہ سجاتا ہوں آئنے
یارب! ترے حبیبؐ کے درپر کھڑا ہوں مَیں
ہوا نے سر پہ باندھا ہے عمامہ اُنؐ کی مدحت کا
آنسو، شفق، چنار، صبا، روشنی ،قلم
آقاؐ عظیم ہیں مرے آقاؐ عظیم ہیں
سپردِ خاک کر ڈالی ہے ہر اک آرزو مَیں نے
بہت دنوں سے اداسی کا زرد موسم ہے
چراغِ آرزو مَیں نے جلا رکھّا ہے برسوں سے
رحمت کی بانٹتے ہیں وہ خیرات ہر گھڑی
سحاب، تتلیاں، جگنو، گلاب، خوشبوئیں
ایک ہی رستہ انہیں ازبر کرایا ہے ریاضؔ
یانبی ؐ اب کے برس بھی رَقص میں آئے قلم
اس دن چراغ جلتے ہیں میلاد کے ریاضؔ
ہزار بار بجھائو چراغ بستی کے
کل بھی گرفتِ خوف میں سانسیں تھیں مضطرب
گلی میں توڑ کر کشکول سب گدائی کے
ملے ہیں زندہ مسائل ہمیں وراثت میں
یہ روز و شب مدینے کی فضا میں سانس لیتے ہو
آپؐ کا انسان پر آقاؐ ہَے احسانِ عظیم
توقیرِ خاکِ شہرِ مدینہ کا دیں شعور
حضورؐ اب کے برس بھی ریاض کے آنسو
روشنی کا ایک دریا موجزن ہَے اس برس
فردیات: توہی بارش کو تھم جانے کا جاری حکم کرتا ہے
دیوار و در بھی جھوم رہے ہیں قلم کے ساتھ
طیبہ کی نرم نرم کھجوروں کا شکریہ
آنکھیں مَیں چھوڑ آیا ہوں روضے کے آس پاس
سوچ رکھّا ہَے بڑی مدت سے مَیں نے بھی ریاضؔ
فاختائیں امن کی زخمی ہوئیں خود بھی حضورؐ
مژدہ سنارہی ہَے مجھے نعت کا ریاضؔ
دمِ رخصت قلم نے احتراماً جب اُدھر دیکھا
ہوائوں کو مقفل کر کے کیا حاصل تمہیں ہو گا
ریاض، عشقِ نبیؐ میں ڈوب کر مَیں نعت لکھتا ہوں
مَیں، رسولِؐ امن کے لاکھوں سفیروں کا سفیر
اللہ حضورؐ کا ہَے، خدائی حضورؐ کی
وہ ؐ میری نعت مدینے میں مجھ سے سنتے ہیں
مرے نقّاد اتنا سوچ لیں تنقید سے پہلے
دل میں خدا کا خوف ہَے لب پر نبیؐ کی نعت
غبارِ شہرِ مدینہ سے التجا کر کے
مَیں کتابِ عشق کے اوراق الٹوں گا ریاضؔ
دیے جلاتی ہَے حُبّ نبیؐ کے سینے میں
کھلی آنکھوں سے رہتے ہیں مدینے کی فضائوں میں
مَیں شرابور مدینے کی ہوں بارش میں ریاضؔ
سر کے بل چل کر مَیں آتا کاش طیبہ میں ریاضؔ
ہوا مجھ سے مخاطب تھی درِ آقائےؐ رحمت پر