نیا شعور، صدی بھی نئی، ہیں خواب نئے- تحدیث نعمت (2015)
نیا شعور، صدی بھی نئی، ہیں خواب نئے
ثنا کی شاخ پہ کِھلنے لگے گلاب نئے
مَیں جس چراغ سے لیتا ہوں روشنی وہ چراغ
افق افق پہ سجاتا ہَے آفتاب نئے
حضورؐ، میرے بھی اُسلوب کی نئی چَھب ہو
ثنا گروں کے مقدّر میں انتخاب نئے
مری کتابِ محبت کو پڑھ کے تو دیکھو
کُھلے ہوئے ہیں ثنائے نبیؐ کے باب نئے
مَیں اپنی زندہ روایت ہی کا تسَلسُل ہوں
برس پڑیں مری مٹی پہ بھی سحاب نئے
ادب کا ہاتھ سے دامن نہ چھوٹنے پائے
نیا شعور بھی لایا ہَے احتساب نئے
مری یہ خام خیالی ہَے تشنہ لب لوگو!
ملیں گے دشمنِ جاں سے مجھے چناب نئے
حضورؐ زندہ مسائل میں زندگی کاٹوں
نئے دنوں نے دیئے مجھ کو اضطراب نئے
حضورؐ، کوہکَنی کو بھلا دیا مَیں نے
لکھے ہیں اپنی ہتھیلی پہ خود عذاب نئے
ملے گی خاک نشینی ہی محنتوں کے بغیر
اٹھاؤں آج بھی مکتب سے مَیں نصاب نئے
مَیں گرہیں کھولتا، رہتا ہوں ہر گھڑی آقاؐ
قدم قدم پہ مصائب ہیں بے حساب نئے
حضورؐ، آج کے بچیّ ذہین بچیّ ہیں
لکھوں گا اِن کے سوالوں کے کیا جواب نئے
غلط ہَے فلسفہ ذہنِ جدید کا یہ ریاضؔ
حروف، ہوں گے دعاؤں کے مستجاب نئے