آبروئے ما (2014)
’’آبروئے ما‘‘ (۱۲؍ ربیع الاوّل ۱۴۳۵ھ/جنوری 2014ء ) ’’اپنے پیارے بیٹے محمد حسنین مدثر کے اعزازِ غلامی کے نام‘’ معنون کیا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی ’’حرفِ آغاز‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ریاضؔ حسین چودھری جو نعت کہتے ہیں اُس میں جذبے کے وفور کے علاوہ فکری عنصر اور معاصر دنیا کے آلام و مسائل پر دردمندی کا وہ احساس بھی شامل ہے جسے جدید نعت کا ایک امتیازی وصف کہا جاسکتاہے۔‘‘ سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی نے بھی اس کتاب کا فلیپ خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں : ’’ان کے کلام میں بے کراں وارفتگی،والہانہ پن، سرشاری، تازہ کاری اور گہری ارادت کا سمندر موجزن ہے اور ان کا قومی و ملّی احساسات سے لے کر انسانی اور آفاقی تصورات اور نظریات پیش کرنے کا سلیقہ بھی خاصا مختلف ہے۔‘‘ زودگوئی کے باوجودریاضؔ چودھری کا اسلوب یکسانیت سے پاک ہوتا ہے۔ اس میںایک نیاپن اور طرزِ بیان کا ایک نیا احساس کارفرما ہے۔ ان کی شاعری میں عصر حاضر کے سیاسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کا انتشار اور زبوں حالی کا ذکر بہت دردمندی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی فریاد ایک فرد کی آواز نہیں بلکہ بارگاہِ رسالت میں پوری اُمت کا استغاثہ ہے ۔ وہ اپنی ہر کتاب میں اپنی تمام تر شاعری سے پہلے ایک مثالی اور اچھوتا سا شعر ضرور رقم کرتے ہیں۔ اس شعر کی معنوی تفہیم کسی بھی تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ یہ شعر زبانِ حال سے خود اپنی وضاحت پیش کر رہا ہے ؎ اگرچہ ایک بھی سکہ نہیں ہے جیب و داماں میں مگر طیبہ میں زنجیریں غلامی کی خریدوں گا
فہرست
حرفِ آغاز (ڈاکٹر خورشید رضوی)
زمیں پر عرصۂ شب کو خدایا! مختصر کر دے
الٰہی! سجدہ ریزی پر ہے آمادہ انا میری
چراغِ آرزو اپنی ہتھیلی پر سجا مانگو
غبارِ نقشِ کفِ پا کی رفعتوں کو سلام
دیے جلانے کی اشکوں سے ابتدا کی ہے
زہے نصیب اگر نکہتِ اذاں میں ہوں
یا رب! مرے آنگن میں اِمشب بھی چراغاں ہو
لپٹ جاؤں گا اُنؐ کے در سے حرفِ التجا بن کر
ریاضِؔ بے نوا کے حال پر آقاؐ کرم کرنا
آنکھ بن کر ہر ورق پر خوب برسا ہے قلم
حضوری کے دن ہیں، حضوری کی راتیں، مقدر ہے اوجِ ثریا پہ اپنا
اینٹ پتھر ذکر کرتے ہیں مری سرکارؐ کا
خوشبوئے خلدِ نبیؐ ہو سیرت وکردار میں
کتنے دلکش ہیں بڑھاپے کے مرے شام وسحر
علم کی مضبوط بنیادیں ہیں افکارِ رسولؐ
حضورؐ، میرے کریم آقاؐ! کرم کی بارش مرے وطن میں
شب بھر چراغِ مدحت، آقاؐ، جلا رہے گا
خوش بخت ہے ریاض دبستانِ رنگ و بو
قرآں کا لفظ لفظ ہے پہچانِ مصطفیٰؐ
گنبدِ خضرا کا ہے عکسِ منَّور رو برو
تخلیق کار خود ہے طلب گارِ مصطفیٰؐ
سرکارؐ ہے چہرے پہ مرے گردِ سفر بھی
حرفِ مدحت میں جلے امشب گلِ تر کے چراغ
کلکِ ادب بنی کبھی کلکِ ثنا بنی
ماہِ عربؐ کی مشعلِ مدحت نصیب ہو
مری سوچوں کے گنبد میں ثنا کے لفظ گونجے ہیں
چراغاں کب ہوا تھا آمدِ سرکارؐ سے پہلے
تاجدارِ امم،ؐ میری آنکھوں کا نم، داستاں امتِ بے نوا کی لکھے
محوِ ثنا ہے جھومتے لمحات میں قلم
طیبہ نگر ہے سایۂ دیوارِ زندگی
رَحلِ انوار پہ ہے اُنؐ کی ثنا کا چہرہ
ثنا کا گلفشاں منظر مکاں میں رکھ دیا ہم نے
درودِ پاک ہونٹوں پر سجا، چوکھٹ پہ آیا ہوں
گھر میں قرطاس و قلم کا کارواں ٹھہرا ہوا
دل وجاں کے افق پر حرفِ مدحت روشنی لکھّے
مرے اندر کا انساں کیف کے عالم میں رہتا ہے
مَیں کتابِ عشق کا بابِ ثنا ہوں، یانبیؐ
آرزوؤں کے جھرمٹ میں شام وسحر، ہم مدینے کی خلدِسخن دیکھتے ہیں
ادب سے کارواں چلتا رہے بادِ بہاری کا
کوئی موسم نہیں میرے چمن میں بے ثمر ٹھہرا
زیادہ تر مضامینِ غزل ہیں سب خیالی سے
میرے آقاؐ کا نام و نسب روشنی
شہرِ سرکارؐ کے بام و در روشنی
میرا قلم حضورؐ کے در پر پڑا رہے
خوبصورت لفظ ہوں دلکش ہو اندازِ بیاں
راستے جانتے ہیں مجھے، اس لئے، راستہ پوچھنے کی ضرورت نہیں
صد شکر اُنؐ کے در سے مرے رابطے رہے
کھلا رَحلِ ادب پر پھر سرِ شب باب مدحت کا
بہار سخن آپؐ کی ذات ہو
غبارِ شہرِ جاں لعلِ بدخشاں کیوں نہیں ہوگا
کیا خبر؟ دیکھی ثنا کب ہاتھ پر لکھّی ہوئی
خوشبو، چراغ نعتِ نبیؐ کے جلائے گی
عمرِ رواں ہے کتنے عوارض میں مبتلا
نقشِ قدم حضورؐ کے تکمیلِ انقلاب
قلم کی روشنی اس کو ابھرنے ہی نہیں دے گی
دامانِ روز و شب میں ہیں میرِ اممؐ کے پھول
مہکے ہیں تشنہ ہونٹ پہ میری دعا کے پھول
آبِ رواں میں رکھّے ہوئے ہیں وضو کے پھول
نعت، لفظوں کی ورق پر بزم آرائی نہیں
آبرو ہیں ہر تمدّن کی، شریعت کے چراغ
چراغِ دل رہے روشن بدن کی تنگناؤں میں
صبا کے ہاتھ مسلسل سلام بھیجا ہے
بھیگے ہوئے ورق پہ ہے تازہ مرا کلام
مدینے کا مَیں منگتا ہوں، کرم سرکارؐ فرمائیں
چلا ہے خوشبوؤں کا قافلہ مدحت کے دفتر سے
جھوٹی انا سے بر سرِ پیکار بھی تو ہوں
آؤ، ریاض! چاند ستارے رقم کریں
ہر لفظ چمن زارِ تمنا میں کھلا ہے
ثنا حضورؐ کی تحریر روشنی کی ہے
خاکِ دہلیزِ پیمبرؐ ہے مری دستار میں
جوارِ گنبدِ خضرا کی دلکشی مانگو
چلو ہم بھی طیبہ کی گلیوں میں چل کر، دل و جاں کو نذرِ حرا کرکے آئیں
ہر سمت دیکھتا ہوں مَیں انوارِ مصطفیٰؐ
التجا ہے آپؐ کے شاعر کی یا خیر البشرؐ
مرے گھر میں ہمیشہ خلدِ طیبہ کی ہوا اترے
ہوائے خلدِ نبیؐ چلے گی، چراغِ مدحت رہیں گے روشن
سرِ اوراقِ مدحت تُو، نوائے خوشنوا بننا
معطر ذکرِ اطہر سے فضا ہے یا رسول اللہ
روشنی ارضِ عرب کے ماہ و اختر کی ملے
زرفشاں شہرِ سخن میں رتجگے طیبہ کے ہیں
ترا اوجِ ثریا پر علم لہرانے والا ہے
تمہیں بھی سانس لینے میں ہے دشواری مرے ہمدم
ہر خیر کا عمل ہے خزینہ حضورؐ کا
جگنوؤں ان تتلیوں اور خوشبوؤں کے درمیاں
ہم تو غلامِ آلِ پیمبرؐ ہیں ہم نفس
لگا کے خاکِ مدینہ کا آنکھ میں سرمہ
ساتوں دھنک کے رنگ بڑے غور سے سنیں
کالی گھٹائیں چاروں طرف سے امڈ پڑیں
مَیں اپنے دل کی بیخود دھڑکنوں کو چوم لیتا ہوں
کہاں مَیں اور کہاں شہرِ پیمبرؐ کے گلی کوچے
مجھ کو یقیں ہے بادِ خزاں کا بھی ایک دن
ہر گلی میں میرے ہیں احباب کی بانہیں بہت
کھلا یہ جرمِ ضعیفی کے تازیانوں سے
ہر چیز پر محیط ہے دامن حضورؐ کا
غلامی کی سند، زنجیر آئی ہے مدینے کی
ہر گلی میں آج بھی روشن ہیں اُنؐ کے نقشِ پا
قبول ہوں گے وہی بال و پر مجھے یا رب!
آپؐ کے دربار کا دربان ہوجاؤں، حضورؐ
اُس کی زباں پہ جاری درود و سلام تھا
روشن ہے کائنات کا چہرہ حضورؐ سے
لب پر مہک رہے ہیں نبی جیؐ دعا کے پھول
پوتی درود پڑھنے لگی تھی ابھی ریاضؔ
شہرِ طیبہ سے ستاروں کی ضیاچنتی رہے
گرد و غبارِ راہِ عجم مَیں بھی ہوں حضورؐ
سورج سوا نیزے کی بلندی پہ ہے آیا
اتر رہے ہیں ستارے ہماری پلکوں پر
ہوائے شہرِ مدینہ سے گفتگو کرنا
ہلالِ عیدِ میلاد النبیؐ نے یہ کہا مجھ سے
ریاض، عشقِ محمدؐ کا یہ تقاضا ہے
حوریہ پوتی نے مجھ کو یہ سند دی ہے حضورؐ
گلابِ اسمِ گرامی کھلے ہیں چاروں طرف
کٹ مریں گے سیدِ ساداتؐ کی ناموس پر
بہاراں ہی بہاراں ہو، بہاراں ہی بہاراں ہو
کرم کی التجا کیسے کریں ہم
شہرِ چشم و دل پہ برسی ہے درودوں کی گھٹا
ہم گنہ گار و خطا کار و سیہ کار سہی
زرخیزئ قرطاس و قلم مانگ رہا ہوں
ہوائے شہرِ مدینہ سے ہمکلامی کا
زرِ شعورِ ثنائے نبیؐ رہا حاصل
خدا کے فضل سے مجھ کو یقیں ہے ہمسفر میرے
ہر سانس میں درود کی مشعل جلی رہے
دریائے آب و تاب میں آبِ رواں رہے
اللہ کے کرم کی یہ برسات ہے ریاضؔ
مری نمناک آنکھوں میں پشیمانی کا طوفاں ہے
چاروں طرف یزید کے لشکر ہیں خیمہ زن
ہوش کی آنکھ جو کھولی تو ندا آئی ریاض
مسلسل نعت لکھتا ہوں شہنشاہِ دو عالمؐ کی
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ہوائیں
مصّلے پر دعاؤں کا ذخیرہ مَیں نے رکھا ہے
در و دیوار پر بھی گنبدِ خضرا کی ہریالی
ریاض، اشکوں کی ارزانی ہے اُس کا فضلِ بے پایاں
مواجھے کی مقدس ساعتوں کا کیا مقدر ہے
ہتھیلی پر چراغِ آرزو رکھ کر دعا دوں گا
چمن زارِ ثنا میں پھول مہکیں گے عقیدت کے
مدینے کی گزر گہ میں چراغاں ہی چراغاں ہے
کون دلجوئی کرے گا اس طرح؟
ہم مدینے کی گلیوں میں یوں گم ہوئے
نسلِ آدم ہے مضافاتِ مدینہ میں حضورؐ
دامن میں پھول، تتلیاں، بادِ صبا، قلم
مرنے کے بعد اپنی لحد میں کروگے کیا؟
سجا رکھّی ہے دسترخوان پر اللہ کی ہر نعمت
میرے رسولؐ، میرے پیمبرؐ، مرے نبیؐ
وقت جب الٹے گا میری سب کتابوں کے ورق
میں گوشۂ لحد میں بڑے احترام سے
نعت کا مقطع مکمل جب مَیں کرلوں گا ریاضؔ
میرے قلم کو چومنے کی آرزو لئے
درِ اقدس کی کشتِ نور سے لایا ہوں سب پودے
جگنو کوئی تلاشنا میرا نہیں طریق
مرے ہاتھوں کو بوسہ دے رہی ہیں چاند کی کرنیں
ریاضِ خوشنوا کی قبر مہکے گی قیامت تک
اس بے بسی کے موسمِ بے رنگ میں ریاضؔ
نقشِ قدم جنابِ رسالت مآبؐ کے