محوِ ثنا ہے جھومتے لمحات میں قلم- آبروئے ما (2014)
محوِ ثنا ہے جھومتے لمحات میں قلم
اترا ہے رنگ و نور کی برسات میں قلم
آنسو بنا ہوا ہے دیارِ حبیبؐ میں
بھیگا ہوا ہے عشق کے جذبات میں قلم
آقاؐ کے در پہ جا کے مناتا ہے رتجگے
شہرِ حضورؐ کے ہے مضافات میں قلم
کشکولِ آرزو لئے طیبہ کی راہ میں
ڈوبا ہوا ہے بحرِ مناجات میں قلم
دیکھیں ہماری نعت سناتا ہے کون سی
بادِ صبا سے آج ملاقات میں قلم
فرصت اسے طوافِ حرم سے کہاں ملی
رہتا نہیں ہے گردشِ حالات میں قلم
خاکِ درِ حضورؐ کی پاکیزگی کا نور
گم ہے ابھی سے طیبہ کی سوغات میں قلم
چاہا اگر خدائے رحیم و کریم نے
محشر کے دن بھی ہوگا مرے ہاتھ میں قلم
ہر ہاتھ پر مدینے کی رکھتا ہے تتلیاں
بچوں کے ان گنت ہے سوالات میں قلم
مہکا ہوا ہے آج بھی خوش بختیوں کے ساتھ
آقائے محتشمؐ کے خیالات میں قلم
سرشار ہے ازل سے سرِ لوحِ روز و شب
سردارِ دوجہاںؐ کی مراعات میں قلم
میں چوم لوں گا آج کے اخبار کو ریاضؔ
بانگِ درا اگر بنے شذرات میں قلم