تاجدارِ امم،ؐ میری آنکھوں کا نم، داستاں امتِ بے نوا کی لکھے- آبروئے ما (2014)

تاجدارِ امم، ؐ میری آنکھوں کا نم، داستاں امتِ بے نوا کی لکھے
چُور زخموں سے میرا قلم ہے تو کیا، اب کہانی شبِ التجا کی لکھے

میری محرومیوں کا کرے تذکرہ، کاش بادِ صبا آج روتے ہوئے
عصرِ نو میں جو برپا ہوئی ہر طرف، خون، روداد اس کربلا کی لکھے

ابنِ آدم درندوں کے نرغے میں ہے، المدد یا خدا الکرم یا نبیؐ
آج تاریخ بھی اپنے اوراق پر خُون افشانی، دستِ قضا کی لکھے

ہر طرف یاسیت کے اندھیرے ملے، چاک دامن کے کب ہیں چمن میں سِلے
کلکِ تقدیر میرے مقدر میں بھی، یانبیؐ ایک چادر ہُما کی لکھے

جھوٹ ہی جھوٹ ہے، دجل ہی دجل ہے‘ خود فریبی کا جنگل ہے پھیلا ہوا
کس کی جھوٹی انا، جھوٹی فردِ عمل، کس لئے میرے جرم و سزا کی لکھے

جانبِ شہرِ طیبہ ہوا چل پڑے، ایک مشعل سی فریاد کی جل پڑے
ڈوب کر اپنے اشکوں میں چشمِ ادب، روشنی مدحتِ مصطفیٰؐ کی لکھے

مَیں غلامی کا جبّہ کروں زیب تن، میری نسلیں ابد تک کہیں، مرحبا
میرے ہاتھوں پہ طیبہ کی ٹھنڈی ہوا، آج تفہیم حرفِ ثنا کی لکھے

ہاتھ خوشبو کا تھامے ہوئے چاندنی، حاضری سے حضوری تلک گلفشاں
شہرِ طیبہ کی دیوار پر جھوم کر، آرزو ایک میر و گدا کی لکھے

تا ابد نعت لکھتا رہوں یا خدا، تا ابد پھول مہکے رہیں ہر طرف
خوشبوؤں کا وثیقہ، سرِ لوحِ جاں‘ دلکشی آپؐ کے نقشِ پا کی لکھے

فتنہ و شر کی صر صر چلی آج بھی، شام اشکوں میں میرے ڈھلی آج بھی
یا خدا، رت خزاں کی، پسِ آب وگِل، موت گلشن میںبرگِ انا کی لکھے

میں ریاضؔ اک بھکاری مدینے کا ہوں‘ میرے ہاتھوں میں کشکول ہے سرمدی
آج بھی آپؐ کا شاعرِ خوشنوا، التجا آپؐ سے پھر دعا کی لکھے