طیبہ نگر ہے سایۂ دیوارِ زندگی- آبروئے ما (2014)

طیبہ نگر ہے سایۂ دیوارِ زندگی
آقا حضورؐ، آپؐ ہیں دستارِ زندگی

اِس عہدِ زر نگار کے بارے میں کیا لکھوں
اسلوبِ سرمدی میں ہے کردارِ زندگی

پتھر بھی پڑھ رہے ہیں قصیدہ حضورؐ کا
طیبہ میں مَیں نے دیکھے ہیں آثارِ زندگی

خاکِ شفاء حضورؐ، مدینے سے بھیجئے
میں کیا ہوں؟ ایک کونے میں بیمارِ زندگی

الجھا ہوا ہوں اپنے تضادات میں ابھی
سمجھوں گا کیا حضورؐ مَیں اسرارِ زندگی

مقروض ہوں حضورؐ مَیں لیل و نہار کا
ٹوٹا پڑا ہے راہ میں پندارِ زندگی

زنجیر پا ہے امتِ بے جان آپؐ کی
رُکنے لگی ہے اس لئے رفتارِ زندگی

لپٹا ہوا ہے کَرب کے گرد و غبار میں
ہر آدمی ہے پھر بھی طلب گارِ زندگی

آقاؐ جہالتوں کے ہے نرغے میں علم و فن
بکھری ہوئی ہیں آج بھی اقدارِ زندگی

بکھرا ہوں سرخیوں میں مَیں، سردارِ کائناتؐ
زخموں سے چُور چُور ہے اخبارِ زندگی

آقاؐ، چنا ہے مَیں نے مفادات کا کفن
روشن، ضمیر پر بھی ہوں افکارِ زندگی

کھولو کتابِ عشق کا بابِ ثناء ریاضؔ
تنہا اداس ہو سرِ بازارِ زندگی