رَحلِ انوار پہ ہے اُنؐ کی ثنا کا چہرہ- آبروئے ما (2014)
رَحلِ انوار پہ ہے اُنؐ کی ثنا کا چہرہ
اور مصروفِ تلاوت ہے صبا کا چہرہ
حرفِ آخر ہیں فرامینِ رسولِ آخرؐ
باعثِ عظمتِ انساں ہے حرا کا چہرہ
مَیں نے توصیفِ پیمبرؐ کے جلائے ہیں چراغ
عجز کے پانی میں ڈوبا ہے انا کا چہرہ
شہرِ طیبہ پہ برستے ہوئے پڑھتی ہے درود
بقعۂ نور میں ہے کالی گھٹا کا چہرہ
آج بھی نقشِ پیمبرؐ کو یہ بوسہ دے گا
صبحِ روشن سے بنا ارض و سما کا چہرہ
عشقِ اصحابِ پیمبرؐ کی بلائیں لے کر
کتنا پر نور ہوا کلکِ رضاؒ کا چہرہ
میرا کاسہ کبھی خالی نہیں ہونے دیتے
وجد میں رہتا ہے آقاؐ کی عطا کا چہرہ
کتنا دلکش ہے زرِ خاکِ مدینہ کے طفیل
میرے اسلوبِ عقیدت میں دعا کا چہرہ
جب سے خوشبو نے سنائی ہے اسے نعتِ رسولؐ
پھول بن بن کے مہکتا ہے ہوا کا چہرہ
حوضِ کوثر پہ ملا جام خنک پانی کا
کھل اٹھا حشر میں ہر شاہ و گدا کا چہرہ
فاختاؤں نے درِ شاہؐ پہ آنسو رکھّے
خون میں تر ہے ابھی شہرِ وفا کا چہرہ
فرش سے عرش تلک ہیں شبِ اسریٰ کے نقوش
اس لئے آج بھی روشن ہے خلا کا چہرہ
نعتِ سرکارِ دو عالمؐ کی بدولت بچّو!
سرخ پھولوں میں کھلا گھر کی فضا کا چہرہ
آنسو آنسو ہے فضا شامِ غریباں کی، ریاضؔ
کربلا آج بھی ہے کرب و بلا کا چہرہ