روشنی ارضِ عرب کے ماہ و اختر کی ملے- آبروئے ما (2014)
روشنی ارضِ عرب کے ماہ و اختر کی ملے
مجھ کو دستارِ کرم خاکِ منّور کی ملے
ہدیتاً ملتی ہے اب پھٹتے غباروں کی ہوا
اے خدا ! آب و ہوا شہرِ پیمبرؐ کی ملے
ہجر کے موسم سے کب ہُوں آشنا میرے حضورؐ
حاضری بارِ دگر اب آپؐ کے در کی ملے
آج آنگن میں چلے بادِ بہاری کا جلوس
کاش خوشخبری مدینے میں مجھے گھر کی ملے
پھر مری کشتی کو طیبہ کے ہے ساحل کی تلاش
موج، ساحل بن کے پھر نیلے سمندر کی ملے
قصرِ شاہی سے مراسم کی نہیں کوئی طلب
نوکری مجھ کو مدینے کے گداگر کی ملے
آپؐ کی نعلین کے صدقے میں اے میرے رسولؐ
خلد میں کٹیا غریبوں کے مقدر کی ملے
جس نے چومے ہوں قدم آقائے رحمتؐ کے ریاضؔ
روزِ محشر مجھ کو سنگت ایسے پتھر کی ملے