زرفشاں شہرِ سخن میں رتجگے طیبہ کے ہیں- آبروئے ما (2014)
زرفشاں شہرِ سخن میں رتجگے طیبہ کے ہیں
دور کب اہلِ نظر سے فاصلے طیبہ کے ہیں
چومتا رہتا ہوں اپنے ہاتھ کو مَیں اس لئے
ہاتھ کی ساری لکیریں راستے طیبہ کے ہیں
جانبِ منزل رواں ہیں چلچلاتی دھوپ میں
بادلو! سایہ کرو یہ قافلے طیبہ کے ہیں
خلدِ طیبہ کے شگفتہ پھول ہیں اسلوب میں
میرے جتنے رابطے ہیں رابطے طیبہ کے ہیں
رنگ، خوشبو، پھول، شبنم، روشنی، بادِ صبا
ٹھنڈے ٹھنڈے، میٹھے میٹھے ذائقے طیبہ کے ہیں
ہر گھڑی رم جھم کا منظر، نور و نکہت کی پھوار
جتنے موسم ہیں یہاں پھولوں بھرے، طیبہ کے ہیں
یہ فضائے دلکشا سرکارؐ کی چوکھٹ کی ہے
خلد کی نہریں سراسر سلسلے طیبہ کے ہیں
لفظ کی تفہیم ہے آقاؐ کے مکتب کی عطا
ہر بیاضِ نعت کے سب حاشیے طیبہ کے ہیں
مَیں مقدر کی بلائیں کیوں نہ لوں شام و سحر
کیا مناظر خوبصورت سامنے طیبہ کے ہیں
زندہ تہذیبوں کی ساری روشنی ہے آپؐ سے
امنِ دو عالم کے سارے ضابطے طیبہ کے ہیں
کچھ نہ کچھ تو اِس شرف کی لاج رکھے آدمی
ہر افق پر رونما یہ معجزے طیبہ کے ہیں
آدمی پر قرض ہیں میرے پیمبرؐ کے بہت
جو بھی صائب فیصلے ہیں فیصلے طیبہ کے ہیں
آندھیوں کو سرکشی سے باز رکھنا ہے، ریاضؔ
یہ چراغِ آرزو جلتے ہوئے طیبہ کے ہیں
عکس فریادی ہو کوئی یہ نہیں ممکن ریاضؔ
عدل کے منصب پہ فائز آئنے طیبہ کے ہیں