راستے جانتے ہیں مجھے، اس لئے، راستہ پوچھنے کی ضرورت نہیں- آبروئے ما (2014)

راستے جانتے ہیں مجھے اس لئے، راستہ پوچھنے کی ضرورت نہیں
جانبِ شہرِ طیبہ قدم ہمسفر خود بخود اٹھ رہے ہیں تو حیرت نہیں

دل ادب سے دھڑکنے کا سیکھے ہنر، یہ مقامِ ادب ہے، مقامِ ادب
وہ تو دل ایک پتھر کا ٹکڑا سا ہے جس میں میرے نبیؐ کی محبت نہیں

نعت لکھتے ہوئے، نعت پڑھتے ہوئے، نعت سنتے ہوئے محفلِ پاک میں
چشمِ تر ہار جن کے پروتی رہی، کوئی اُن آنسووں کی بھی قیمت نہیں

ہر طرف سائبانِ کرم آپؐ کا، ہر طرف پر کُشا ہے علم آپؐ کا
حشر کے دن میں گھبراؤں گا کس لئے، پیش منظر میں کیا اُنؐ کی رحمت نہیں

دل کی آنکھوں سے قرآن جب بھی پڑھا، ہر ورق پر ملی ہے اُنہیؐ کی ثنا
ہر طرف اُنؐ کی مدحت کے ہیں رتجگے، کس طرف اُنؐ کے جلووں کی جنت نہیں

اُنؐ کے در کی گدائی بڑی چیز ہے، خوش نصیبی ہے ہاتھوں میں کشکول ہے
اُنؐ کے در کا مجھے ایک منگتا کہو، اس سے بڑھ کر کوئی اور عزت نہیں

میں اُنہیؐ کی غلامی میں سرشار ہوں، ورنہ دونوں جہانوں میں بے کار ہوں
خون بھی ہو مرا تووہ میرا نہیں جس کو سرکارِ طیبہؐ سے نسبت نہیں

آپؐ آئے تو بادِ بہاری چلی، امن کی عافیت کی سحر ہوگئی
رہنما ہیں نقوشِ قدم آپؐ کے، کس کے دُکھ کا مدادا شریعت نہیں

آپؐ جیسا کوئی دوسرا ہے کہاں، آپؐ کی مثل ہونے کا دعویٰ غلط
آپؐ جیسا کسی کا بھی باطن نہیں، آپؐ جیسی کسی کی بھی صورت نہیں

اُنؐ کی تخلیق بنیاد ہر چیز کی، حشر میں بھی فقط ہیں وسیلہ وہی
میری ہر سانس اُنؐ کے تصدق سے ہے اور کیا ہے جو اُنؐ کی بدولت نہیں

مغربی علم و دانش کے بقراط تُو، کچھ تو خوفِ خدا کا سبق پڑھ کبھی
تُو نے سوچا بھی ہے؟ تُو نے پرکھا بھی ہے؟ تیرے افکار تیری جہالت نہیں؟

میں ریاضؔ ایک بندہ گنہ گار ہوں ایک عاصی ہوں یا رب، خطا کار ہوں
میری بھی مغفرت ہو ترے فضل سے، میرے سجدوں کی کوئی حقیقت نہیں