خوبصورت لفظ ہوں دلکش ہو اندازِ بیاں- آبروئے ما (2014)
خوبصورت لفظ ہوں دلکش ہو اندازِ بیاں
منفرد اسلوبِ توصیفِ شہِ کون و مکاںؐ
حرفِ تازہ میں معانی کا جہاں آباد ہو
مصرعِ تر میں رہے جاری خنک آبِ رواں
اشک پلکوں پر چراغِ نعت بن بن کر جلیں
جب بھی لب کھولیں سرِ محفل مرے نطق و بیاں
میرے اوراقِ ثنا پر نور کی کلیاں کِھلیں
کلکِ مدحت کی بلائیں لے ادب سے کہکشاں
مَیں غلامی کی ردائے ریشمیں اوڑھے رہوں
کیف میں ڈوبے رہیں میرا قلم، میری زباں
ذکر کے قابل فقط ہے آپؐ کا ذکرِ جمیل
کیا کسی کا مکتبِ شب، کیا کسی کی تختیاں
مَیں کہ شہرِ امن کی گلیوں میں پڑھتا ہوں درود
عافیت کا میرے سر پر بھی رہے گا سائباں
ہر قدم پر پاؤں کی پازیب بن جائے غزل
جب مدینے کی طرف ہو قافلہ میرا رواں
یا خدا! مجھ کو گداز و سوز کی شبنم ملے
خوشبوئیں نقشِ کفِ پا کی سنائیں داستاں
یا خدا! میری وراثت میں ثنا گوئی رہے
میری نسلوں کے مقدّر میں ہو رحمت کا جہاں
ہر پرندے کی زباں پر نعت ہو سرکارؐ کی
آپؐ کی ذاتِ مقدّس پر سلامِ قدسیاں
مَیں ازل سے شہرِ طیبہ کے طرفداروں میں ہوں
کھول رکھی ہے مدینے میں غلامی کی دکاں
یہ ہوائیں باادب ہو کر ملیں عشّاق کو
یا محمد مصطفیٰؐ کی ہوں صدائیں پر فشاں
جو کبوتر گنبدِ خضرا کو کرتے ہیں سلام
کب بناتے ہیں درختوں پر وہ اپنا آشیاں
آج بھی ہر زخم پر مرہم رکھیں میرے حضورؐ
کون سنتا ہے سوائے آپؐ کے میری فغاں
آپؐ ہی سب کے نبیؐ ہیں، آپؐ ہی سب کے رسولؐ
آپؐ ہی دونوں جہانوں میں ہیں میرِ کارواں
یا خدا! توفیق دے تو کربلائے عَصْر میں
مَیں برنگِ نعت دیتا ہی رہوں تیری اذاں
ہوں بوقتِ نعت گوئی عشق کی محراب میں
خوشبوئیں، جگنو، دھنک، بادِ بہاری، تتلیاں
فتنہ و شر نے عمامہ باندھ رکھا ہے ریاضؔ
آج بھی لکھی گئی ہے کربلا کی داستاں
اب صفِ ماتم پہ بھی آنسو کوئی گرتا نہیں
مَیں ریاضِؔ نوحہ گر جاؤں بھی تو جاؤں کہاں
آمنہؓ کے لالؐ کا جشنِ ولادت ہے ریاضؔ
چوم لے میری مصوَّر اِس زمیں کو آسماں
نعت کا مقطع لکھو اب اے ریاضِؔ خوشنوا
اُس خدا کے نام سے جو ہے خدائے مہرباں