چلو ہم بھی طیبہ کی گلیوں میں چل کر، دل و جاں کو نذرِ حرا کرکے آئیں- آبروئے ما (2014)
چلو ہم بھی طیبہ کی گلیوں میں چل کر، دل و جاں کو نذرِ حرا کرکے آئیں
جبیں پر نقوشِ قدم اُنؐ کے رکھ کر، نمازِ محبت ادا کرکے آئیں
مدینے کے ہر پیڑ کو دیں سلامی، ہوا اور خوشبو سے ہو ہمکلامی
مدینے کے بچوّں کے ہاتھوں کو چومیں، غلامی کی ہر انتہا کرکے آئیں
ورق پر سجے اُنؐ کے قدموں کی جنت، درو دوں کے گجرے اِدھر
بھی اُدھر بھی
لُغت کے ہر اک لفظ کو لوحِ جاں پر مدینے میں حرفِ ثنا کرکے آئیں
مواجھے کی کتنی سہانی فضا ہے، سلاموں کی رم جھم بڑی خوشنما
ہے
برستی گھٹاؤں کو بنجر زمینوں کا سر سبز ہم حاشیہ کرکے آئیں
نبی جیؐ کی توصیف کی چاندنی میں، ہوائیں چراغِ ثنا بانٹتی
ہیں
ثنائے پیمبرؐ کے اسلوبِ نو کو بھی دستارِ ارض و سما کرکے آئیں
مدینے کی ٹھنڈی ہوا مانگتے ہیں، ہوا سے بھی خاکِ شفا مانگتے
ہیں
خزاں میں جو جھڑتے رہے ہیں بدن سے، انہیں پھر سے بالِ ہما کرکے آئیں
یہ لُو کے تھپیڑے چلے آرہے ہیں، سخنور کا ہر پھول مرجھا
رہا ہے
پسِ ریگِ صحرا پڑی تشنگی کو خنک موسموں کی ردا کرکے آئیں
قلم سر جھکائے درِ مصطفےؐ پر، بدن کی خراشیں دکھانے لگا
ہے
لرزتے ہوئے ہاتھ اپنے اٹھا کر، وطن کے لئے ہر دعا کرکے آئیں
نمایش کے سارے جھرد کے گرا دیں، ستایش کے پتلے گلی میں جلا
دیں
رعونت کی مسند سے نیچے اتر کر، تکبر کو گردِ قضا کرکے آئیں
زمیں رو رہی ہے، فلک رو رہا ہے، مقدّر ہمارا ابھی سو رہا
ہے
جو پتھر پڑے ہیں سرِ عام ہم کو، انہیں آج بادِ صبا کرکے آئیں
اذیت کے لمحوں کی بارش میں بھیگے غلاموں کا ہر قافلہ ملتجی
ہے
مسائل بدن سے جو لپٹے ہوئے ہیں، انہیں پھر سپردِ خدا کرکے آئیں
ریاضؔ آج شہرِ پیمبرؐ میںہم ہیں، خنک موسموں کے سمندر میں
ہم ہیں
تہجد کے اوقات میں سر جھکا کر خرد کے دریچوں کو وا کرکے آئیں