دیے جلانے کی اشکوں سے ابتدا کی ہے- آبروئے ما (2014)
دیے جلانے کی اشکوں سے ابتدا کی ہے
نقوشِ پائے محمدؐ کی اقتدا کی ہے
تمام عمر درود و سلام پڑھتے ہوئے
جنابِ سیّدِ ساداتؐ کی ثنا کی ہے
افق افق پہ چمکتے ہوئے ستاروں میں
تمام روشنی اُنؐ کے نقوشِ پا کی ہے
مکینِ گنبدِ خضرا کا ہے کرم بے حد
قلم پہ رحمتِ یزداں بھی انتہا کی ہے
اٹھا رکھے ہیں ہوا نے دیے غلامی کے
حضورؐ حاضری یہ آپؐ کے گدا کی ہے
قفس میں قید پرندوں کے کھول کر بازو
اداس نسل نے تقلیدِ مصطفیٰؐ کی ہے
نہیں ہے قیصر و کسریٰ کے بھی خزانوں میں
خدا نے نعت کی دولت مجھے عطا کی ہے
وفورِ عجز میں رہتی ہے اُنؐ کی چوکھٹ پر
عجیب ایک کہانی مری انا کی ہے
اُسے ملے ہیں خلاؤں میں راستے روشن
مرے حضورؐ سے جس نے بھی التجا کی ہے
برہنہ سر کو چھپائے یہ کس جزیرے میں
یہ شام آپؐ کی امت کے انخلا کی ہے
بتا مجھے ذرا، سچ سچ بتا، مدینے میں
نمازِ عشقِ محمدؐ کبھی ادا کی ہے؟
شجر کی شاخِ برہنہ پہ پھول کرنوں کے
مرے سخن کے پرندوں نے بھی دعا کی ہے
ہوا ہے قصرِ رسالت کا بند دروازہ
یہ شان سارے رسولوں کے پیشوؐا کی ہے
ہر ایک لفظ سے ٹپکی ہیں خون کی بوندیں
یہ داستان شہیدانِ کربلا کی ہے
نصابِ عشق مرتّب کیا ہے قدرت نے
جو دلکشی ہے، پیمبرؐ کی ہر ادا کی ہے
قلم کو چاند ستاروں کا پیرہن آقاؐ
یہ التماس عزیزانِ خوش نوا کی ہے
ملے حضورؐ کا دھوون جلی زمینوں کو
ہماری تشنہ لبی نے یہ التجا کی ہے
مَیں جس کے اذنِ مسلسل سے سانس لیتا ہوں
فقط وہ ایک ہی ہستی مرے خدا کی ہے
ریاضؔ، حشر میں ڈھونڈیں گے آپؐ کا خیمہ
یہ بات ربِّ محمدؐ کے انبیاء کی ہے