غبارِ نقشِ کفِ پا کی رفعتوں کو سلام- آبروئے ما (2014)

غبارِ نقشِ کفِ پا کی رفعتوں کو سلام
چراغِ طاقِ دل و جاں کی سب لَووں کو سلام

ہوائے خلدِ مدینہ کی نغمگی پہ درود
درِ نبیؐ پہ عقیدت کے آنسوؤں کو سلام

ازل سے جامِ غلامی کے رقص پر سر مست
جنابِ ساقیٔ کوثرؐ کے میکشوں کو سلام

ہر ایک نقشِ قدم پر نثار قلب و جگر
جوارِ گنبدِ خَضرا کے موسموں کو سلام

بہارِ جنتِ ارضی پہ رحمتوں کا نزول
رہِ حضورؐ پہ نکلے مسافروں کو سلام

ہیں جن کے ہاتھ میں زم زم کی چھاگلیں لاکھوں
فضائے وادیٔ بطحا کے بادلوں کو سلام

درود آپؐ پہ پڑھتی ہیں وجد میں آکر
ہمارے قلبِ پریشاں کی دھڑکنوں کو سلام

مرے خدا مرے ابّا کی قبر ٹھنڈی ہو
جلوسِ عیدِ ولادت کے بانیوں کو سلام

چراغِ نعت جلاتے ہیں آندھیوں میں ہزار
مرے بھی دورِ محبت کے سعدیوں کو سلام

ہر ایک لمحے کو خلعت ملی ہے عظمت کی
حجازِ عشقِ پیمبرؐ کی ساعتوں کو سلام

رکھوں گا کیسے حضوری کی بارشوں کا حساب
دیارِ عشق و محبت کے رتجگوں کو سلام

حضورؐ آپؐ کے ہر جاں نثار پر مَیں نثار
وفا شعار غلاموں کے آنسوؤں کو سلام

غلام آلِ نبیؐ پر بھی بھیجتے ہیں درود
جنابِ سیدِ ساداتؐ کے بڑوں کو سلام

جوارِ گنبد خضرا میں جان و دل رکھ دوں
حضورؐ آپؐ کے روضے کی جالیوں کو سلام

قدم قدم پہ بچھی روشنی کے کیا کہنے
گلی گلی میں سجے دل کے آئنوں کو سلام

مشامِ جاں ہے معطر صدی صدی کا ریاضؔ
ہزار خلدِ مدینہ کی نکہتوں کو سلام

چلو ریاضؔ کریں گفتگو ستاروں سے
ہر ایک آنکھ میں روشن ہوئے دیوں کو سلام

جو گونج اٹھتے ہیں معصوم قہقہوں سے ریاضؔ
دیارِ پاک کے پاکیزہ آنگنوں کو سلام

حَشْر میں نقشہ کُھلے جب شہرِ طیبہ کا، حضورؐ
ایک دروازے پہ میرا نام ہو لکھّا ہوا