کوئی موسم نہیں میرے چمن میں بے ثمر ٹھہرا- آبروئے ما (2014)
کوئی موسم نہیں میرے چمن میں بے ثمر ٹھہرا
گرا آنسو مرا جو بھی چراغِ رہگذر ٹھہرا
مدینے میں بھی نہریں دودھ کی بہتی ہوئی دیکھو
مدینے کا سفر جنت کی وادی کا سفر ٹھہرا
صبا کے سبز جھونکے بھی وضو اشکوں سے کرتے ہیں
مرا ہر استغاثہ کب چمن میں بے اثر ٹھہرا
مقفل کب کئے ہیں اشکِ تر طیبہ کے منگتوں نے
ثنا گوئی پیمبرؐ کی سخن داں کا ہنر ٹھہرا
پرندہ ہوں، مَیں اپنے بال و پر کو چوم لیتا ہوں
مدینے کی فضائے محتشم میرا بھی گھر ٹھہرا
فقیہہِ شہر کے نزدیک جو معتوب ہے شاعر
جہاں میں نعت گوئی کی بدولت معتبر ٹھہرا
صدا مکے مدینے میں پہنچ جاتی ہے لمحوں میں
بیاضِ نعت کا ہر شعر میرا نامہ بر ٹھہرا
خدا کے فضل کا مینہ ٹوٹ کر برسا قلمداں پر
مَیں اپنی خوش نصیبی سے ابھی تک بے خبر ٹھہرا
مخاطب کرکے مجھ کو کاش طیبہ کی ہوا کہہ دے
مضافاتِ مدینہ کا تُو بوڑھا سا شجر ٹھہرا
مرے اندر کا انساں چوم کر اسمِ محمدؐ کو
چراغِ آرزو کی روشنی کا ہے شرر ٹھہرا
قلم سرشار رہتا ہے مرا کیفِ مسلسل میں
عمل مدحت نگاری کا ہدف شام و سحر ٹھہرا
مجھے ایسے لگا صدیوں سے جیسے ملتجی ہوں مَیں
مواجھے میں حضوری کا وہ عرصہ مختصر ٹھہرا
خدا کے گھر میں سجدہ ریزیوں کے بعد، دیوانو!
ہماری منزلِ مقصود آقاؐ کا نگر ٹھہرا
ریاضِؔ خوشنوا، تجھ پر کرم ہے میرے آقاؐ کا
غضب کی دھوپ میں سر پر سحابِ چشمِ تر ٹھہرا