کتنے دلکش ہیں بڑھاپے کے مرے شام وسحر- آبروئے ما (2014)

کتنے دلکش ہیں بڑھاپے کے مرے شام و سحر
ایک اک لمحہ گذرتا ہے درِ سرکارؐ پر

میری خوش بختی کا اندازہ کرے گا کیا کوئی
حالتِ سجدہ میں رہتے ہیں مرے قلبِ و جگر

وجد کے عالم میں ہوں گی دھڑکنیں دل کی تمام
گنبدِ خضرا کے بوسے لے گی جب میری نظر

حرفِ توصیف و ثنا کی بارشیں دن رات ہوں
نعت لکھنے میں بسر ہو یہ حیاتِ مختصر

ہر حوالے کو ہے نسبت سیدِ ساداتؐ سے
ہر حوالہ ہے قلمدانِ ثنا کا معتبر

قیمتی میرا اثاثہ ہے غلامی کی سند
بچّہ بچّہ میری نسلوں کا ہے اس پر مفتخر

چشمِ تر ہے منتظِر سرکارؐ کے ہر نقش کی
ذرّہ ذرّہ ہے مدینے کا جمالِ منتظَر

مدحتِ سرکارؐ میں سرشار رہتا ہے قلم
زندگی میری نہیں مجہول لمحوں کا سفر

امتِ مرحوم آنکھیں ہی نہیں رکھتی، حضورؐ
امتِ مرحوم ہے انجام ہی سے بے خبر

زلزلوں کی زد میں ہے ارضِ وطن، آقا حضورؐ
اک پرندہ بھی نظر آتا نہیں اب شاخ پر

پھر صفِ ماتم بچھی ہے ہر گلی میں یا نبیؐ
امتِ سرکش کا نوحہ لکھ رہی ہے چشمِ تر

آج بھی رکھیّں گے آقائے مدینہؐ ہی بھرم
آپؐ دیں گے ہم سے دیوانوں کو دستارِ ہنر

راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں قافلے کیوں اے ریاضؔ
ہر قدم پر جب فروزاں ہیں چراغِ رہگذر