چلا ہے خوشبوؤں کا قافلہ مدحت کے دفتر سے- آبروئے ما (2014)

چلا ہے خوشبوؤں کا قافلہ مدحت کے دفتر سے
سجے ہیں راستے فکر و نظر کے ماہ و اختر سے

کبھی وہ مسترد کرتا نہیں اُنؐ کے وسیلے کو
دعائیں بے اثر لَوٹی ہیں کب شہرِ پیمبرؐ سے

کُھلا رہتا ہے آقائے مکرمؐ کا یہ دروازہ
بھریں گے جام ہم بھی اُنؐ کی رحمت کے سمندر سے

مری آنکھو! چھپا لو اپنے دامن میں اِسے جھک کر
غبارِ راہِ طیبہ ہاتھ آتا ہے مقدّر ہے

کسی کی مفلسی کو ڈھانپنا بے حد ضروری ہے
طلب کشکول کرتے ہیں مدینے کے گداگر سے

خدا کا شکر ہے بستی غلاموں کی یہ بستی ہے
ندائے یارسول اللہ اُٹھی ہے آج گھر گھر سے

مصائب کے در و دیوار اونچے ہوتے جاتے ہیں
بچاؤ کی کوئی صورت نبی جیؐ، غم کے لشکر سے

مقیّد ہے در و دیوار میں بھی عِلم کی مسند
حضورؐ آنے لگا ہے خوف جَبْرِ شب کے منظر سے

نظر تہذیب کے دھوکے میں آجاتی ہے لمحوں میں
منافق ساعتیں بنتی ہیں اکثر سنگِ مر مر سے

بہت گہرے ہوئے ہیں شام کے سائے سرِ مقتل
ریاضؔ، اسمِ محمدؐ تم لکھو کلکِ منّور سے