مری سوچوں کے گنبد میں ثنا کے لفظ گونجے ہیں- آبروئے ما (2014)

مری سوچوں کے گنبد میں ثنا کے لفظ گونجے ہیں
جوارِ دیدہ و دل میں دھنک کے رنگ برسے ہیں

ثنائے مصطفیٰؐ کی کہکشاں اتری ہے سانسوں میں
مرے بھی خون میں شامل ستارے ہوتے رہتے ہیں

اجازت آپؐ سے لے کر ولادت کے مہینے میں
کسی کے آنسوؤں کے قافلے طیبہ میں ٹھہرے ہیں

شفاعت سے کوئی محروم رہ جائے، یہ ناممکن
کھلے اُنؐ کے کرم کے ان گنت روشن دریچے ہیں

شبِ میلاد کو دینے سلامی دونوں ہاتھوں سے
ابھی بچے اٹھا کر مشعلیں گلیوں سے نکلے ہیں

چراغاں ہو رہا ہے میری پلکوں کے شبستاں میں
درِ سرکارؐ کے منظر مری آنکھوں میں بستے ہیں

مَیں اپنی خوش نصیبی پر بڑا ہی ناز کرتا ہوں
فضائے نعت میں دلکش پرندے اڑتے رہتے ہیں

نہیں مَیں جانتا لکھّا ہے کیا اعمال نامے میں
مگر ہاتھوں میں توصیفِ پیمبرؐ کے صحیفے ہیں

مرے خوابوں کی رعنائی کا اندازہ کرے کوئی
مناظر شہرِ طیبہ کے تسلسل سے گذرتے ہیں

سلیقہ کب مجھے آتا ہے، آقاؐ بات کرنے کا
مرے افکار بے معنیٰ ہیں‘ مٹی کے گھروندے ہیں

درودوں کے، لئے گجرے‘ عقیدت سے‘ محبت سے
فرشتے آسماں سے روضئہ اطہر پہ آتے ہیں

مقدر کیا مقدر ہے مدینے کی فضاؤں کا
کٹورے خوشبوؤں کے ان فضاؤں سے اترتے ہیں

کسی نادیدہ قوت نے چرالی قوتِ بازو
حضورؐ امت کے روز و شب سے کتنے خوف لپٹے ہیں

یزیدوں نے بٹھا رکھے ہیں پہرے کب سے دریا پر
غبارِ کربلا میں امتِ بے بس کے خطیّ ہیں

کفن اجداد کے بازار میں لانے کے مجرم ہم
اثاثے اپنے آباء کے بھی نیلامی میں بیچے ہیں

کئی برسوں سے خورشیدِ تمنا بادلوں میں ہے
مرے گوٹھوں‘ گراؤں پر بھی مایوسی کے سائے ہیں

گرے ہیں طنز کے نشتر جلے پیڑوں کے ملبے پر
ہماری بے بسی کے آسمانوں میں بھی چرچے ہیں

ہماری عقل پر پتھر پڑے ہیں یا رسول اللہ
ہم اپنے گھر کی بنیادوں میں پانی بھرنے والے ہیں

دعائیں لَوٹ آتی ہیں گلی کے موڑ سے، آقاؐ
شبِ تشکیک کے کانٹے گلستانوں میں ملتے ہیں

صفِ ماتم بچھانے کی ہمیں تھی آرزو کتنی
ہم اپنے ہاتھ سے نوحے پسِ دیوار لکھتے ہیں

کہاں تک دُکھ بتاؤں یا رسول اللہ امت کے
بہت سے اشک آنکھوں میں زبردستی بھی روکے ہیں

مٹا رکھا ہے ہم نے‘ یا نبیؐ زندہ ثقافت کو
ادب سے ہم نے قبروں پر بہت سے پھول ڈالے ہیں

زمیں پر خونِ ناحق کے بہت چھینٹے نظر آئے
فضائے پاک میں، یامصطفیٰؐ، زخمی پرندے ہیں

بھلا بیٹھے ہیں ہم ارشادِ اقدس کا ہر اک پہلو
بہت سے لوگ کوڑے میں سے اپنا رزق چنتے ہیں

کتابِ عشق کے اوراق ہی گیلے نہیں ہوتے
مرے آنسو سرِ محراب و منبر بھی سلگتے ہیں

حضورؐ‘ امت مقیّد ہو رہی ہے بند گلیوں میں
قیامت کے مناظر میری آنکھوں نے بھی دیکھے ہیں

محمدؐ نام لکھنا بھی عبادت ہی عبادت ہے
ہزاروں پھول مکتب کی ہر اک تختی پہ مہکے ہیں

منافق ساعتوں کی ہے گرفتِ ناروا ہم پر
نبیؐ جی، ہر طرف یہ خارشی مکروہ چہرے ہیں

ہزاروں بار میرا نام شعروں میں ہوا شامل
یہ زنجیرِ غلامی کے بڑے مضبوط حلقے ہیں

خدا کا شکر ہے میں حالتِ سجدہ میں رہتا ہوں
ریاضِؔ نعتِ پیغمبرؐ میں لاکھوں پھول کھلتے ہیں