قلم کی روشنی اس کو ابھرنے ہی نہیں دے گی- آبروئے ما (2014)
قلم کی روشنی اس کو ابھرنے ہی نہیں دے گی
کہاں تک سر اٹھائے گی مرے اندر کی تاریکی
درودوں اور سلاموں کے ہزاروں رتجگے دے کر
چراغوں کی لَووں کو تیز کر دینا ہے دانائی
یہ کس نے ناخدا کو اپنے شیشے میں اتارا ہے
مری کشتی کنارے پر نہیں ہے بے سبب ڈوبی
کبھی سیلاب لے جاتا ہے گندم کا ہر اک خوشہ
مری پیاسی زمینوں پر کبھی بارش نہیں ہوتی
اسے تو لَوٹ ہی جانا تھا پھولوں کے دبستاں میں
صبا آنچل میں خوشبو کو مسلسل روک کر رکھتی
چلو اس مرحلے پر روشنی سے پوچھ لیتے ہیں
کہ صدیوں کے سفر میں ظلتِ شب کسی قدر برسی
خدا اُس کی ہتھیلی پر چراغِ آرزو رکھ دے
مرے بچوں کی قسمت میں لکھی ہے جس نے محرومی
ریاضِؔ بے نوا تم منتظر ہو اپنی سانسوں کے
کبھی بھی مقتلوں سے زندگی واپس نہیں لوٹی