آنکھ بن کر ہر ورق پر خوب برسا ہے قلم- آبروئے ما (2014)
آنکھ بن کر ہر ورق پر خوب برسا ہے قلم
باوضو ہو کر نبیؐ کی نعت لکھتا ہے قلم
حمد سے نعتِ نبیؐ تک روشنی ہی روشنی
لفظ سے پہلے کتابِ دل پہ اترا ہے قلم
مَیں اسے مہتاب لکھّوں یا اسے سورج کہوں
بادلوں کی اوٹ سے پر نور نکلا ہے قلم
ہمنشینی اِس سے، لمحوں سے نہیں، صدیوں سے ہے
روزِ محشر بھی تو میرے ساتھ اٹھا ہے قلم
اپنے اِس اعزاز پر نازاں بھی ہے خنداں بھی ہے
آپؐ کا مہمان، آقاؐ، آج تنہا ہے قلم
میرے سامانِ سفر کا کل اثاثہ دیکھئے
نعت کی زندہ کتابیں اور میرا ہے قلم
منفرد سی روشنی ہے اس نئے اسلوب میں
چاند تارے خاکِ طیبہ ہی سے چُنتا ہے قلم
مدحتِ سرکارؐ میں مصروف ہر لمحہ رہے
اس لئے ربِ محمدؐ نے یہ بخشا ہے قلم
جالیوں کو اپنی آنکھوں میں سجا کر رات بھر
خوشبوئے اسمِ محمدؐ میں مہکتا ہے قلم
طاقِ جاں میں رکھ رہا ہے عشق کے جلتے چراغ
عشق کی تسبیح پر دل کا وظیفہ ہے قلم
یہ مسلسل اڑتا رہتا ہے مدینے کی طرف
گنبدِ خضرا کے بوسے لے کے آیا ہے قلم
بانٹتا رہتا ہے ان میں حُبِّ ختم المرسلیںؐ
میرے بچوّں کو سفر نامہ سناتا ہے قلم
اپنے منصب پر خدا کا شکر لاتا ہے بجا
جب بھی ڈھونڈوں تو مجھے سجدے میں ملتا ہے قلم
آج بھی بادِ صبا الٹے محبت سے ورق
آپؐ کی مدحت نگاری کا وسیلہ ہے قلم
آج بھی خلدِ مدینہ کی اسے یاد آئی ہے
ساتھ میرے شامِ تنہائی میں رویا ہے قلم
اُنؐ کی توصیف و ثنا کا ہر حوالہ معتبر
میری قسمت کا، حقیقت میں، ستارا ہے قلم
حشر تک کے واسطے اس کو اقامہ مل گیا
شوق سے مَیں نے درِ آقاؐ پہ بدلا ہے قلم
وقتِ رخصت، رقصِ بسمل کا ہے منظر سامنے
کیا بتاؤں کس طرح روضے پہ تڑپا ہے قلم
مستقل اس کا پتہ تحریر کر جاتا ہوں مَیں
مستقل سرکارؐ کی چوکھٹ پہ رہتا ہے قلم
آخرِ شب آج بھی لکھتا رہا نعتِ حضورؐ
آج بھی اشکِ رواں میں خوب بھیگا ہے قلم
کیا دکھاتی ہے مجھے شہرِ پیمبرؐ کی تڑپ
کن مراحل سے، شبِ ہجراں، گذرتا ہے قلم
یہ بھلا خاطر میں کیا لائے گا تخت و تاج کو
سرورِ کونینؐ کے در کا جو منگتا ہے قلم
چومتا رہتا ہوں اس کو مَیں محبت سے ریاضؔ
ریشمی خلعت کے پیراہن میں لپٹا ہے قلم
کیا مقدر سا مقدر اِس نے پایا ہے ریاضؔ
بن کے تصویرِ ادب، قدموں میں رہتا ہے قلم