خاک میں لپٹی ہوئی خاکِ پریشاں بھی عزیز- تحدیث نعمت (2015)
خاک میں لپٹی ہوئی خاکِ پریشاں بھی عزیز
سوچئے، کیا ہَے مسلماں کو مسلماں بھی عزیز
جس سے نکلے ہیں یدِ بیضائے نعتِ مصطفیٰ
مجھ کو بوسیدہ، پھٹا سا وہ گریباں بھی عزیز
دونوں رہتے ہیں مدینے کی ہوا سے ہمکلام
اس لئے شاعر کو اپنا دل بھی ہَے جاں بھی عزیز
میری ہر لغزش سے بھی صرفِ نظر کرتے رہے
سرورِ کونینؐ کو ہیں مجھ سے ناداں بھی عزیز
آسمانی ہر صحیفے نے کہا آتے ہیں آپؐ
اُنؐ کی توصیف و ثنا کا ہر قلمداں بھی عزیز
آخرِ شب جو گرے اشکِ ندامت سب قبول
دھند میں لپٹا ہوا سروِ چراغاں بھی عزیز
ایک اک نسبت گروہِ پاکبازاں کی سند،
بوریا مطلوب ہَے، تختِ سلیماںؑ بھی عزیز
اُنؐ کے نقشِ پا خلاؤں میں ہیں روشن آج بھی
عرش والے کو زمیں والوں کے مہماں بھی عزیز
مجھ کو شہرِ مصطفیٰؐ کی دھوپ ہَے پیاری بہت
مجھ کو شہرِ مصطفیٰؐ کے باد و باراں بھی عزیز
بیچ دیتے ہیں کفن اجداد کے بازار میں
امّتِ سرکارؐ کو یارب، ہو ایماں بھی عزیز
رفتگاں کی خوشبوئیں شاید کہیں مدفون ہوں
ہر جزیرے کا مجھے جنگل، بیاباں بھی عزیز
اپنے ہر شاعر کو وہؐ دیتے ہیں خِلعت نور کی
سیّدِ ساداتؐ کو ہے ہر ثنا خواں بھی عزیز
قصرِ شاہی کے دریچوں پر جو دے دستک، حضورؐ
وہ ہوائے جَبرِ شب کا مجھ کو طوفاں بھی عزیز
آمریت کو کیا ہَے مسترد لیکن، ریاضؔ
اُنؐ کے ہوں جو مقتدی وہ میر و سلطاں بھی عزیز