کب قلم میرا جلے خیموں کے انگاروں میں ہے- تحدیث نعمت (2015)
کب قلم میرا جلے خیموں کے انگاروں میں ہَے
حرفِ توصیفِ نبیؐ، دل کے چمن زاروں میں ہَے
میرا دل بھی عجز کی تصویر بن کر ہمسفر!
شہرِ طیبہ کے گلی کوچوں کی دیواروں میں ہے
مجھ سا عاصی اپنی بخشش پر نہیں حیرت زدہ
دل ازل سے ہی شفاعت کے طلب گاروں میں ہے
کب عمل کی روشنی ہَے دامنِ صد چاک میں
آپؐ کا شاعر گنہ گاروں، خطا کاروں میں ہے
آج بھی بارش کا پانی سرخ لگتا ہَے حضورؐ
خون شہرِ امن ہی کا آج اخباروں میں ہے
کاغذی سر کوڑیوں کے مول بکتے ہیں، حضورؐ
کب کوئی کردار اِن ریشم کی دستاروں میں ہے