دکھوں کی برکھا میںکب سے بھیگا ہوا بدن ہے، حضور آقاؐ- تحدیث نعمت (2015)
دکھوں کی برکھا میں کب سے بھیگا ہوا بدن ہَے، حضور آقاؐ
شبِ غضب کا مہیب سایہ چمن چمن ہَے، حضور آقاؐ
قلم سے شرم و حیا کی چادر، ضمیرِ مردہ نے چھین لی ہَے
ردائے اشکِ رواں میں ڈوبا ہوا سخن ہے، حضور آقاؐ
مجھے یقیں ہَے خنک ہوائیں مدینے سے چل پڑیں گی اِمشب
گرفتِ زر میں، غبارِ شر میں، مرا وطن ہَے، حضور آقاؐ
عجیب موسم قدم قدم پر چراغ شب کے بجھا رہا ہے
اداس کب سے افق افق پر کرن کرن ہَے، حضور آقاؐ
کہاں ہَے جگنو، کہاں ہَے تتلی، کہاں ہَے شبنم، کہاں ہیں
کلیاں
خزاں سے سہمی ہوئی فضا اب سمن سمن ہَے، حضور آقاؐ