دو نعتیہ: امتِ سرکش کی آقا ؐ سرکشی ہو منتقل- تحدیث نعمت (2015)
اُمّتِ سرکش کی آقاؐ سرکشی ہو منتقل
اب امیرِ کارواں کی بے بسی ہو منتقل
اے مدینے کی سہانی شام کی رعنائیو!
اِس طرف بھی رتجگوں کی روشنی ہو منتقل
کہکشاؤں کے اتر آئیں گلی میں قافلے
حرفِ مدحت میں قلم کی دلکشی ہو منتقل
میرے مشکیزے خنک زم زم سے بھر جائیں حضورؐ
میرے ہونٹوں سے ازل کی تشنگی ہو منتقل
ہُوں مسلسل مَیں حصارِ مرگ میں یا سیّدیؐ
پیرہن میرے بدن کا کاغذی ہو منتقل
ہو خیابانِ کرم میں زندگی میری بسر
ارضِ جاں میں عِلم کی تابندگی ہو منتقل
ہر افق پر آپؐ کے ارشاد کا سورج اگے
سرزمینِ لا الہ سے تیرگی ہو منتقل
مَیں ریاضِ بے ہنر ہوں ملتجی آقا حضورؐ
میرے آنگن میں حقیقی ہر خوشی ہو منتقل
٭
آسمانوں کی فضائے سرمدی ہو منتقل
ذہنِ انساں میں تخیل ریشمی ہو منتقل
لب کشائی کا سلیقہ چاہئیے مجھ کو حضورؐ
شہرِ خاموشاں میں میری خامشی ہو منتقل
اف خدایا! عَدل کا چہرہ ہَے مجرم کی طرح
اب قلمداں کے ہدف میں منصفی ہو منتقل
سانس لینے میں ہَے دشواری کا مجھ کو سامنا
شہرِ دلکش کی ہوا اب یانبیؐ ہو منتقل
دامنِ خلدِ سخن کے سرمدی ماحول میں
گلشنِ توصیف کی ہر ہر کلی ہو منتقل
درد کی سوغات بانٹوں اہلِ دل میں رات دن
میری اِقلیمِ قلم سے بے حسی ہو منتقل
نعت کا مقطع ابھی لکھنا ہَے یا خیرالبشرؐ
میرے اوراقِ ثنا پر چاندنی ہو منتقل
جس نے مدحت کے سفر کی ابتدا کی ہَے ریاضؔ
میرے دل میں بھی وہی وابستگی ہو منتقل