شہرِ طیبہ میں مری خاک اڑا دی جائے- تحدیث نعمت (2015)
شہرِ طیبہ میں مری خاک اڑا دی جائے
ایک مجرم ہوں، سرِ عام سزا دی جائے
جس میں شامل ہی نہیں خلدِ مدینہ کی شفق
ایسی تصویر فریموں سے ہٹا دی جائے
یہ مدینے کے علاوہ بھی چھلک پڑتے ہیں
میرے ہر اشک پہ پابندی لگا دی جائے
صرف مَیں نعت نگر کا ہوں مکیں، اس کے سوا
میری پہچان کی ہر شکل مٹا دی جائے
یا ملے شہرِ خنک! تیرا اقامہ مجھ کو
یا مرے رستے کی دیوار گرا دی جائے
ایک اک بستی خدا کی، مرے پیارے بچّو!
نعت کے سرخ گلابوں سے سجا دی جائے
کب سے درپیش ہَے بے نام جزیروں کا سفر
ناخداؤں سے مری جان چھڑا دی جائے
مَیں نے بھی آپؐ کی چوکھٹ کو سلامی دی ہے
روزِ محشر مجھے اتنی سی، اَنا دی جائے
ایک مجہول سا، فالج زدہ انساں ہوں، حضورؐ
مجھ کو بھی خواب میں ریشم کی ردا دی جائے
کتنے زخموں کا بسیرا ہَے بدن میں میرے
یا رسول اللہ، مجھے خاکِ شفا دی جائے
جس کا ہر پتہ نہیں محوِ ثنا، محِو درود
ایسے ہر پیڑ کو بس آگ لگا دی جائے
مَیں نے دیکھے ہیں مدینے کے پرندے گھر میں
میرے اس خواب کی تعبیر بتا دی جائے
یہ بھی اظہارِ تشکر کی ہی صورت ہَے ریاضؔ
رونقِ لوح و قلم سب کو دکھا دی جائے
جب قلم ٹوٹ کے گر جائے عدالت کا ریاضؔ
اُنؐ کے دربار کی زنجیر ہلا دی جائے
ابنِ آدم کے سلگتے ہوئے زخموں پہ ریاضؔ
چادرِ رحمتِ سرکارؐ بچھا دی جائے