پیرہن میری ثنا گوئی کا ہَے نجمِ سحر- تحدیث نعمت (2015)
پیرہن میری ثنا گوئی کا ہَے نجمِ سحر
ظلمتِ شب کا کہاں ہو گا گلستاں سے گذر
پھر چراغِ آرزو روشن ہوئے ہر طاق میں
پھر چلی ہَے شامِ مدحت میں ہوائے معتبر
کیا مقدّر ہَے غریبِ شہرِ زر کا ہم نفس
گنبدِ خضرا ہَے اس کے آنسوؤں میں جلوہ گر
قافلے شہرِ خنک کی سَمت پھر جانے لگے
خوشبوئیں میرا اٹھا لائی ہیں سامانِ سفر
تتلیوں کے پر سجانے کے بجائے، یا نبیؐ
میرے بچّوں نے کتابوں میں چھپا رکھّے ہیں ڈر
یا نبیؐ، تازہ ہوا میں سانس کیا لے گا کوئی
لوگ رکھتے ہیں کہاں پتھر کی دیواروں میں در
آپؐ کے قدموں سے نہ لپٹیں تو پھر جائیں کہاں
سب حروفِ آرزو، نوحہ کناں، اشکوں میں تر
الجھنوں میں کب سلجھ پائے گا انساں کا ضمیر
اس کے احوالِ کبیدہ سے بھی ہو صرفِ نظر
مفلسی نے راستہ روکا ہوا ہَے یا نبیؐ!
مِٹ گئی گردِ مسائل سے مری بھی رہگذر
آپؐ کے شاعر کے لب بھی ہیں مقفّل اِن دنوں
اِس کی سوچوں کے پرندوں کو نہیں ملتے شجر
میرے سر میں بھی ہوس نے ڈال رکھا ہَے فتور
پاؤں کے نیچے پڑی ہَے کب سے دستارِ ہنر
یا نبیؐ، چشمِ کرم، چشمِ کرم، چشمِ کرم
میرے آنسو پونچھتی رہتی ہے عمرِ مختصر
قَرض میں جکڑا ہوا ہَے ان دنوں میرا وجود
یہ جو دریا ہَے حوادث کا کبھی جائے اتر
ہوں مسلسل بارشیں آسودہ لمحوں کی یہاں
شکریہ، سرکارؐ مجھ کو مل گیا چھوٹا سا گھر
میرا بیٹا سرخ، انگاروں پہ چلتا ہَے، حضورؐ
حوصلہ اس کو مسلسل دیجئے، شام و سحر
سنگ باری ہو رہی ہَے کوچہ و بازار میں
کیف میں ڈوبا رہے میرا قلم اوراق پر
ہر طرف جنگل کی آوازوں کے بے ہنگم جلوس
مَیں ریاضِ خوشنوا، آؤں مدینے میں اُدھر