چشمِ تر کو آج بھی اشکوں کی طغیانی ملے- تحدیث نعمت (2015)
چشمِ تر کو آج بھی اشکوں کی طغیانی ملے
دولتِ عشقِ پیمبرؐ کی فراوانی ملے
کل مؤرخ آج کی تاریخ جب لکھیّ، حضورؐ
آپؐ کے دامن میں اُس کو نسلِ انسانی ملے
حضرتِ حسّانؓ کے قدمَین کو چھوتے ہوئے
قَصرِِ توصیف و ثنا کی مجھ کو دربانی ملے
پھیل جا چاروں طرف طیبہ کی اے ٹھنڈی ہوا
سانس لینے میں جہاں والوں کو آسانی ملے
آرزو ہَے حوضِ کوثر کے خُنک ماحول میں
حَشر کے دن مجھ کو بھی حُکمِ ثنا خوانی ملے
نامۂ اعمال ہَے کالی سیاہی سے سیاہ
رحمت و بخشش کے موسم کی درخشانی ملے
سانس لے شہرِ محمدؐ کی فضاؤں میں قلم
میرے اُسلوبِ ثنا کو نورِ قرآنی ملے
آپؐ کی نعلین کے صدقے میں اے میرے خدا
میری بنجر ساعتوں کو شبنم افشانی ملے
میری فصلوں پر رہے ابرِ کرم سایہ فگن
غم نہیں مجھ کو زمیں صدیوں کی بارانی ملے
ہر اندھیرا اپنے اندر ہی سمٹ جائے، حضورؐ
ہر عمل کو روز و شب قندیلِ ایمانی ملے
جس جگہ شام و سحر اتریں ملائک کے ہجوم
اُس درِ اقدس پہ ہر نعمت کی ارزانی ملے
جھیل پر اڑتے پرندوں نے کہا یا سیّدیؐ!
پیاس کی ماری زمینوں کو کُھلا پانی ملے
خاکِ طیبہ سے منّور عکس ہوتے ہیں جہاں
آئنوں کو شہرِ پیغمبرؐ میں حیرانی ملے
آئندہ نسلوں کو بھی ہو منتقل میرا کلام
یا خدا! نطق و بیاں کو شعر لافانی ملے
ہاتفِ غیبی نے دل سے یہ دعا دی ہَے، ریاضؔ
تجھ کو اِقلیمِ ثنا گوئی کی سلطانی ملے