کھڑے ہیں سر کو جھکائے تمام نوکر بھی- تحدیث نعمت (2015)
کھڑے ہیں سر کو جھکائے تمام نوکر بھی
حضورؐ، ساتھ ہیں دیوار و در کے لشکر بھی
ہتھیلیوں پہ دیے ہی نہیں غلامی کے
چراغ جلتے ہیں مدحت کے میرے اندر بھی
بہت ہی کم ہیں درختوں کی ٹہنیاں یارب!
بہت ہی کم ہیں ثنا کے لئے سمندر بھی
مطافِ مدحتِ خیرالبشرؐ میں دیوانہ
رواں دواں رہے بعدِ قیامِ مَحشر بھی
درود پڑھتی ہیں خوشبو کی ٹولیاں اُنؐ پر
سلام کرتے ہیں غارِ حرا کے پتھر بھی
ہزار اشکِ ندامت مَیں ساتھ لایا ہوں
درِ حضورؐ پہ پہنچا ہے اِک سخنور بھی
حضورؐ عرشِ معلی پہ آج آتے ہیں
بچھے ہوئے ہیں گذرگہ میں ماہ و اختر بھی
حدودِ وادیٔ بطحا کے رتجگوں میں مجھے
قدم قدم پہ ملے روشنی کے پیکر بھی
قلم لحد میں کھلائے گا پھول لفظوں کے
بیاضِ نعت مکمل کریں گے مر کر بھی
ریاضؔ، لب پہ ہمارے درود رہتا ہے
سلام پڑھتی ہَے پیہم شبِ منّور بھی