غزل کاسہ بکف ساکت کھڑی ہے اُنؐ کی گلیوں میں (ریاض حسین چودھری)- غزل کاسہ بکف (2013)
نعت وہ صنفِ سخن ہے جو دیگر تمام اصنافِ سخن کے سر کا تاج ہے۔ نعت محض صنفِ سخن ہی نہیں لوح و قلم کی مسلسل سجدہ ریزیوں کا بھی نام ہے۔ یہ کائناتی سچائیوں کی آئینہ بردار اور کائنات کی سب سے عظیم اور محترم شخصیت کے اوصافِ مقدسہ کا عکسِ جمیل بھی ہے۔ ہر صنفِ سخن منتظر رہتی ہے کہ اُسے خوشبوئے نعت کو اپنی سانسوں میں سمونے کا اعزاز حاصل ہو۔ لغت چشم براہ رہتی ہے کہ اس کے برہنہ سر پر ثنائے رسول کا عمامہ سجایا جائے، غزل، قصیدہ، پابند نظم، نظمِ آزاد، نظمِ معریٰ، قطعہ، رباعی، مسدس، مخمس وغیرہ سے لے کر ہائیکو، ثلاثی، کوثریہ اور دیگر اصناف تک کا دامن بہارِ نعت کے سدا بہار پھولوں سے مہک رہا ہے اور دیارِ دیدہ و دل میں روشنی ہو رہی ہے۔ ہدایتِ آسمانی کی آخری دستاویز قرآنِ حکیم بھی ایک نعتِ مسلسل ہے اور یہ کتابِ آخر نثر میں ہے۔ دستِ قدرت نے بابِ ثنا میں حرفِ زوال لکھا ہی نہیں، غزل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ زیادہ تر نعت اسی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ غزل اپنی اس خوش بختی پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔
شعرائے نعت کا غزل پر احسان ہے کہ انہوں نے نعت گوئی کے لئے غزل کی ہیٔت کو اپنایا ہے اور غزل کا مقدر کہ ثنائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان سرمدی اثاثوں کو اپنے دامن میں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ غزل ایک سدا بہار صنفِ سخن ہے۔ اردو اور فارسی نعت نے اسے حیاتِ ابدی بخشی ہے۔ ہزار سال بعد بھی غزل کی ہیت میں کہی جانے والی نعت ہی مقبول ترین نعت ہو گی اور اسے عوام اور خواص دونوں میں زبردست پذیرائی حاصل رہے گی۔ نعت: عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تخلیقی اور جمالیاتی اظہار کا نام ہے، حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے والہانہ اور غیر مشروط محبت اور اتباع کو معیارِ ایمان قرار دیا گیا ہے، یہی محبت اور اتباع خالقِ حقیقی تک رسائی کا وسیلہ جلیلہ ہے اور غزل اسی معیارِ ایمان کے ابلاغ کے لئے اپنی تمام تر تخلیقی توانائیاں وقف کئے ہوئے ہے۔ نعت اسلامی تہذیب، تمدن اور ثقافت کا ایک دلآویز مظہر بھی ہے۔ کیونکہ اسلامی تہذیب، تمدن اور ثقافت کا مرکز و محور آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں جن کے سرِ اقدس پر خود خدائے بزرگ و برتر نے محبوبیت کا تاج سجایا اور ان کی خاطر ان کے ذکرِ جمیل کو بلند کرنے کا اعلان آخری الہامی صحیفے میں کیا۔ کتابِ مقدسہ کے اوراق کو خالقِ کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکار سے مصوَّر فرمایا ہے ہر طرف تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن کی قندیلیں روشن ہیں۔ کائنات کا تمام حسن و جمال سردارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین کی خیرات ہے۔ نعت دراصل حکمِ ربی کی تعمیل ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: میں اور میرے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر گھڑی درود و سلام بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوب خوب درود بھیجو۔ نعت کی اساس بھی درود و سلام پر رکھی گئی ہے۔ غزل باوضو ہو کر ہماری ثقافتی اکائی کے تحفظ کی علامت بنی ہوئی ہے۔ نعت درود و سلام کا پیکرِ شعری ہے۔ غزل درود و سلام کے اسی پیکرِ شعری کی تمنائی ہے۔ غزل کی ساری رعنائیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کا خام مواد بنتی ہیں۔ یقینا یہ ایک حقیقت ہے اور محض جذباتی یا شاعرانہ سوچ نہیں کہ روئے زمین پر آج تک کوئی ایسی ساعت نہیں اتری جس کے شاداب ہاتھوں میں خوشبوئے اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم نہ ہو، سفرِ ثناء ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔
جب کائنات میں اﷲ کے سوا کوئی نہ تھا تو سب سے پہلے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تخلیق ہوا، بعد میں کائناتِ رنگ و بو معرضِ وجود میں آئی، کائنات کی وسعتیں اس وقت بھی درود و سلام کا پرچم اٹھائے ہوئے تھیں اور لامکاں کی وسعتیں اس وقت بھی درود و سلام کے زمزموںسے گونج رہی ہوں گی جب ہر چیز موت کی آغوش میں سو چکی ہو گی۔ صرف اﷲ کی ذات باقی ہو گی وہ جو ابتدائوں کی ابتدا اور انتہائوں کی انتہا ہے، جو ہمیشہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ غزل نے نعت کے دامنِ صد رنگ کی خلعتِ فاخرہ اوڑھ کر اپنی ہی سلامتی اور بقا کا اہتمام کیا ہے۔
غزل جب جہانِ نور کی تلاش میں ابہام اور تشکیک کے مقفل دروازوں پر دستک دیتی ہے تو معانی کی ان گنت دنیائوں کے منظر ناموں کی دھند خود بخود چھٹنے لگتی ہے اور اسے نئے آفاق کی تسخیر کی بشارت ملتی ہے۔ جب یہی غزل اپنے تہذیبی اور ثقافتی شعور کے ساتھ ہوائے مدینہ کی انگلی پکڑ کر درِ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کے شرف سے مشرف ہوتی ہے تو اس کے مقدر کا ستارا اوجِ ثریا پر چمکنے لگتا ہے اور ابلاغ کی چاندنی لفظ کے ظاہر ہی کو نہیں اس کے باطن کو بھی منور کر دیتی ہے۔ غزل تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ عطا پر کاسہ بکف حرفِ التجا بن کر کھڑی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعلین پاک کی خیراتِ مطہرہ کی تمنائی ہے۔ غزل سے نعت تک کا تخلیقی سفر رنگوں، روشنیوں اور خوشبوئوں کا سفر ہے، کائناتی سچائیوں اور جمالیاتی توانائیوں کی معراج ہے۔ غزل جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں چشمِ کرم کی ملتجی ہوتی ہے تو اس کی آنکھیں ہی نہیں پوری کائناتِ حسن روشنیوں سے بھر جاتی ہے۔ ہوا چراغ بانٹنے کا منصب سنبھالتی ہے اور خوشبوئیں نعت گو کے قلم کا طواف کرنے لگتی ہیں۔ بگڑے غزل گو کو نعت گوئی کے معتبر اور معطر کوچے میں زبردستی دھکیلنے کی سازش ایک گھنائونا جرم تھی، یہ ابلیسی سازش بیمار ذہنوں کی اختراع تھی اگرچہ یہ شیطانی فلسفہ اپنے ہی ملبے تلے دفن ہو چکا ہے لیکن اس کی باقیات کسی نہ کسی انداز میں آج بھی ذہنوں میں فتور برپا کرنے کے مکروہ عمل میں مصروف رہتی ہیں۔ منظر نامہ اب اتنا واضح اور روشن ہے کہ ابہام اور تشکیک کی گرد کو رختِ سفر باندھنے کے سوا کوئی اور تدبیر نہیں سوجھتی، غزل نسیمِ نعت کے ہر مقدس جھونکے کی پذیرائی کے لئے حرفِ سپاس بن کر تخلیق کی رہگذر پر دست بستہ منتظر رہتی ہے۔ قدم قدم پر غلامی کے چراغ جل رہے ہیں، قدم قدم پر خود سپردگی کی شبنم گر رہی ہے، قدم قدم پر رعنائیِ خیال دم بخود ہے۔ قدم قدم پر دھنک کے رنگ اپنا دامن بچھا رہے ہیں اور قدم قدم پر صبا چراغِ آرزو لئے نغمہ سرا ہے۔ غزل نے اپنا سارا حسن نعت کے قدموں پر نثار کر دیا ہے اور عملاً مذکورہ بیہودہ رائے زنی کی نفی کر دی ہے۔ نعت دراصل غزل کے لئے پروانۂ نجات ہے، میں یہاں غزل کے مضامین اور موضوعات کا حوالہ دینے کی جسارت نہیں کر رہا، صرف غزل کے جمالیاتی وژن کی بات کر رہا ہوں۔ جب یہ جمالیاتی وژن شاعر کے تخیل کو اپنے حصارِ حسن میں لے لیتا ہے تو قصرِ نعت کے دروازے خود بخود وا ہونے لگتے ہیں، غزل کا رچائو اس کی ایمائیت اور اس کی نرماہٹ فنی بالیدگی کے آئینہ خانوں میں عکس ریز ہونے لگتی ہے تو شاعر کو اذنِ ثنا عطا ہوتا ہے۔ حریمِ غزل تو نعت گو کا تربیتی کیمپ ہے جہاں اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے کہ جب شاعر بارگاہِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دل کے آبگینوں کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے تو اس کا تخلیقی وجود بھی ادب و احترام اور شعری وژن کے احرامِ مقدسہ میں لپٹا ہوا ہو، چمنِ زار غزل میں جذبات و احساسات کی حنا بندی کے بغیر منصبِ نعت سنبھالنا بہت بڑی ادبی جسارت ہے۔ اس بے ادبی کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ پہلے دیارِ غزل میں تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیتوں کی پرورش ہوتی
ہے، اس کا احساسِ جمال رفتہ رفتہ پروان چڑھتا ہے۔ جب وہ فنی باریکیوں سے آگاہی حاصل
کر لیتا ہے تو فنی پختگی اس کے قلم کو اعتماد کے نور سے ہمکنار کرتی ہے۔ تب کہیں جا
کر اسے نعت گوئی کا اعزاز حاصل ہوتا ہے، نمازِ عشق ادا کرنے سے پہلے اشکوں سے وضو کرنے
کا سلیقہ آئے تو اقلیمِ نعت میں باریابی کی اجازت ملتی ہے، زبردستی شہرِ نعت میں گھس
آنے والے در اندازوں کی ادبی موت کا منظر ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہیں۔
تاریخِ ادب شاہدِ عادل ہے کہ ایک اچھا غزل گو ہی اچھا نعت گو ثابت ہوتا ہے۔ غزل کی
کوملتا سے دامن چھڑا کر دل کے شگفتہ پھولوں کی آبیاری کا تصور تخلیقی حوالوں سے انحراف
کے سوا کچھ بھی نہیں، ہم جانتے ہیں کہ منحرف چہرے اپنے تشخص کے لئے سرگرداں رہتے ہیں
لیکن ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ جمالیاتی قدروں سے فرار حاصل کر کے ممدوحِ کبریا
کی بارگاہِ صد احترام میں شائستگی، سنجیدگی اورمتانت کی قدروں کو کہاں تک تحفظ کی ردا
دی جا سکتی ہے۔ نعت محض اوزان اور بحور کے حوالے سے اپنی پہچان نہیں رکھتی بلکہ نعت
اندر کی روشنی کے بھرپور ابلاغ کا نام ہے۔ کبھی کبھار غزل میں نعت کا شعر ہو جاتا ہے
اسی طرح نعت میں بھی غزل کے شعر کے در آنے کو ناممکنات کے زمرے میں نہیں ڈالا جا سکتا
لیکن ایسے اشعار بلا واسطہ نہ سہی بالواسطہ طور پر نعت کے حیطۂ ادراک میں بھی آ سکتے
ہیں اور نعت کا مجموعی تاثر مرتب کرنے میں اپنا بھرپور کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔
غزل اور نعت کی تخلیقی اور جمالیاتی کڑیاں بہرحال کہیں نہ کہیں جا کر آپس میں ضرور
ملتی ہیں۔ ایک سچے نعت نگار کو ان کڑیوں کو مربوط بنانے کی سعی میں مصروف رہنا چاہیئے
کہ یہی تخلیقی عمل نعت کے ادبی مقام کے تعین میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو چراغِ
راہ بنانا ہو گا کہ نعت درود و سلام کے پیکرِ شعری کو کہتے ہیں۔ اقلیمِ نعت میں کسی
قسم کی بے تکلفی کو داخلے کی قطعاً اجازت نہیں۔ ادب! ادب! کہ ادب پہلا قرینہ ہے…
ریاضؔ حسین چودھری