تمام رات برستے ہیں چشمِ تر کے سحاب- غزل کاسہ بکف (2013)

عطا ہوئی ہے مجھے خود سپردگی کی کتاب
یہی ہے عشقِ پیمبرؐ کے روز و شب کا نصاب

مجھے یقین ہے رخصت اگر صبا کو ملی
ضرور لائے گی میری گزارشوں کا جواب

فقط یہ پھول ثناؤں کے ساتھ لایا ہے
فرشتے آ کے لحد میں کریں گے میرا حساب

میں جانتا ہوں مدینہ ہی میری منزل ہے
ہزار بار اٹھیں دشتِ آرزو میں سراب

ہماری آنکھ میں تابِ نظر ہو، ناممکن
اٹھے نہ مصحفِ خاکِ درِ نبیؐ سے حجاب

طلب خدا کی رضا ہے یا آپؐ کی ہم کو
غلام آپؐ کے ہیں بے نیازِ اجر و ثواب

ق

گلی محلے میں کوئی بھی جانتا ہی نہیں
کہ اس مکان میں کھلتے ہیں مدحتوں کے گلاب

تمام رات جلا رہتا ہے قلم کا چراغ
تمام رات برستے ہیں چشمِ تر کے سحاب

میں خود چراغ ثنائے حضورؐ کا ہوں، ریاضؔ
میرے بدن پہ کیا اترے گا جَبْرِ شب کا عذاب