یا قادر مطلق- غزل کاسہ بکف (2013)

مرے خدا، کبھی سوکھے نہ میرے نطق کی جھیل
زمینِ تشنہ پہ جاری ہو پانیوں کی سبیل

ازل سے پہلے بھی تُو ہے، ابد کے بعد بھی تُو
تری ہی ذاتِ مکرّم ہے ہر کسی کی کفیل

تُو لا شریک ہے، تنہا ہے اور یکتا ہے
نہ تیرا ہمسر و ثانی نہ کوئی تیری مثیل
قدم قدم پہ چراغاں تُو ہی تو کرتا ہے
غبارِ شب کی بھی جانب ہے چاندنی کی فصیل

تُو ہی جمال کا پیکر، تُو ہی جلال کی چھَب
تُو ہی ہے قادرِ مطلق، تُو ہی ہے ربِ جلیل

مرے حضورؐ کا ارشاد ہے، خدا ہے ایک
نہ میرے پاس ہے حجت نہ میرے پاس دلیل

مرے خدا، تری توفیق ہی سے شام و سحر
مری زبان پہ جاری ہے تیرا ذکرِ جمیل

جوارِ شہرِ قلم میں ہے نکہتوں کا ہجوم
ورق ورق پہ ہے تفہیمِ آرزوئے خلیل

ضمیرِ حرفِ دعا میں شفا بھی رکھ مولا!
شعور تیری عبادت کا پھر ہوا ہے علیل

کئی کروڑ ہیں انسان اس کے نَرْغے میں
سو تیرے حکم کا منکر ہو آج خوار و ذلیل
کہیں سے بھیج دے میرے خدا، ابابیلیں
کہ بڑھ رہے ہیں نئے ابرہہ کے لاکھوں فیل

پگھل رہے ہیں حرارت سے قیدیوں کے دماغ
تُو دے گا وقت کے فرعون کو کہاں تک ڈھیل

مرے خدا تو مرے رزق میں اضافہ کر
بنا ہوں جس کا مَیں قیدی وہ بادشہ ہے بخیل

قیامِ حشر تلک سانس کس طرح لیں ہم
زمیں پہ رہ گئی باقی جو وہ ہوا ہے قلیل

یہ میرے ہاتھ میں زنجیر عَدْل کی ہے، مگر
مرے خدا، مرا قاتل بنا ہوا ہے وکیل

ریاضؔ، خود تو وہ میری ہے شاہ رگ سے قریب
خدا کا پہلا وہ گھر دور ہے ہزاروں میل