پیشوائی
حفیظ تائب
’’زرِ معتبر‘‘ ریاض حسین چودھری کی دس برس پہلے تک کی نعتوں کا مجموعہ ہے اور اس میں شاعر نے اُس دورِ زندگی کی نمائندگی کرنے کی کوشش کی ہے، جب وہ ابھی دربارِ مصطفوی میں حاضری سے مشرّف نہیں ہوا تھا۔ یہ الگ بات کہ اُس کا یہ کلام بھی ایک بھرپور حضوری کا آئینہ دار ہے۔
ریاض حسین چودھری کی نعت میں اس قدر تسلسل، ایسی گہری وابستگی، اتنی تازگی و شگفتگی اور اس درجہ وسعت و ندرت ہے کہ اس کی خوبیوں کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ پھر اس کتاب میں شاعر کا اپنا مقدمہ ’’تحدیثِ نعمت‘‘ ایسا نثری شہپارہ ہے، جس میں نعت اور اس کتاب کی نعت کے بارے میں ایسا جامع، بلیغ اور دلکش محاکمہ پیش کیا گیا ہے، جو کسی اور کے کچھ کہنے کے لیے بہت کم گنجائش چھوڑتا ہے۔ پھر بھی اس شاہکارِ عقیدت کی پیشوائی کے لیے حاضر ہوں کہ یہ ایک طرف تو ریاض حسین چودھری کی محبتوں کا تقاضا ہے تو دوسری طرف اُس کی کچھ اور تحریریں راستہ دکھانے کے لیے موجود ہیں۔ ’’گلِ چیدہ‘‘ میں شاعر نے اپنی ذات اور اپنے عہد کی شناخت کو اپنا نظریۂ نعت قرار دیا تو نعت کے امکانات و مقاصد میں ذہنوں کی تطہیر کے منصب، مسلمانانِ عالم کے اتحاد کی بنیاد، دہر میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُجالا کرنے کے شعور، ملی تشخص کو اُجاگر کرنے کے فریضہ کو شامل کیا ہے۔ مجلہ ’’اوج‘‘ کے نعت نمبر میں ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کے سوال آپ نعت گوئی کی طرف کیسے مائل ہوئے بنیادی محرکات کیا تھے…؟ کے جواب میں ریاض حسین چودھری نے لکھا ہے : ’’یوں لگتا ہے، جیسے ازل سے میری رُوح حصارِ عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پناہ گزیں ہے۔ ازل سے اُنہی قدوم مبارک میں جبینِ نیاز سر بسجود ہے، شعور کی آنکھ کھولی تو گھر میں اﷲ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ اطہر سے فضا کو معمور پایا۔ میں شعوری طور پر نعت کی طرف نہیں آیا، اس لیے بنیادی محرکات کی توجیہ کرنے سے قاصر ہوں۔ ‘‘ اُس کی یہ صورتِ حال مجھے میرے حالات سے بالکل مماثل لگی ہے اور مجھے مولوی غلام رسول قلعہ میہاں سنگھ والوں کا یہ شعر یاد دلا گئی ہے۔
خدا جانے جدوں کی جائیاں میں
مرے بابل ترے لڑ لائیاں میں
’’تحدیثِ نعمت‘‘ میں ریاض حسین چودھری نے یہ خبر بھی دی ہے کہ اس صحیفہ نعت میں شامل تقریباً سبھی نعتیں مواجہ شریف میں کھڑے ہو کر سردارِ کائنات کی خدمتِ اقدس میں پیش کرنے کی لازوال سعادت حاصل ہوئی‘‘
یہ نصیب اﷲ اکبر۔ ۔ ۔ ۔
’’زرِ معتبر‘‘ میں نعتیہ شاعری کو آزاد اور پابند نظموں کے وسیع امکانات کے ذریعے، نئے آفاق دکھائے گئے ہیں تو غزلیہ انداز کی نعتوں کو جدید تر اسالیب سے ہم آہنگ کر کے نیا وقار عطا کیا گیا ہے۔ غزل پاروں (قطعات) میں ذاتی کیفیات کا اظہار، بطورِ خاص، نہایت عمدگی سے ہوا ہے۔ آزاد اور پابند نظموں میں جہاں سیرت کے بیکراں مضامین کا احاطہ کیا گیاہے، وہاں ان کا ہر ہر مصرع اور ہر ہر سطر پیرایۂ غزل لیے ہوئے ہے۔ نعتیہ غزلیں شاعر کی جولانی طبع کی بدولت ایک طرف قصیدہ بنتی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف اُن میں نظم کا تسلسل در آیا ہے۔ نو بہ نو ردیفیں اور زمینیں اس پہ مستزاد ہیں۔ جذبات و شعریت کا وفور اور گہرا عصری شعور ہر صنف کو آگے ہی آگے بڑھاتا نظر آتا ہے۔ ورق ورق پر شاعر کی آرزوؤں کی ایک دُنیا آباد ہے۔ لیکن اُس کی کوئی آرزومادی نہیں… وہ آرزو مند ہے کہ اُس کے نطق کی ابابیلیں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھول برسائیں اور دیارِ غزل کی گلیوں میں ثنائے احمد مرسل کی دلکشی اُترے… وہ ذاتی و ملی آشوب کے حوالے سے عرض گزار ہے: اِس برس میرے آنگن میں اتنے پھول کھلیں کہ میں ہر شخص کا دامانِ آرزُو بھر سکوں اور ـ
ہوا کے دوش پہ رکھ کر چراغ مدحت کے
دلوں کی اونگھتی گلیوں میں روشنی کردوں
وہ مدحتِ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس اہتمام و التزام کا طالب ہے :
دھنک سات رنگوں کی رم جھم اُٹھائے
مرے دامنِ شعر میں جھلملائے
اور اُس کی توقعات کچھ یوں ہیں ؎
ورق کو ذوقِ جمال دے گا قلم کو حُسنِ مقال دے گا
اُسی کا ذکرِ جمیل شہر غزل کی گلیاں اجال دے گا
حدود طائف میں زخم کھا کر دعا کے سکے لٹانے والا
بریدہ جسموں پہ سبز چادر عطا و بخشش کی ڈال دے گا
شاعر حضورؐ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے اپنی اور اپنے بے چہرہ تمدن کی پہچان کی تمنا رکھتا ہے۔ اُسے غزل کے اور اپنے بختِ رسا پر بھی ناز ہے، وہ اپنے تشخص کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اگر اُس نے اپنی ذات کا تشخص چاہا بھی ہے تو یہ کہہ کر بات ختم کر دی ہے کہ
تراؐ حوالہ ہی سب سے بڑا حوالہ ہے
ریاض کی کائناتِ نعت میں گھر اور وطن کا استعارہ ایک جاندار اور توانا اکائی کے طور پر استعمال ہوا ہے، شاعر تاجدارِ کائنات کی بارگاہ میں پہنچتا ہے تو اپنے بچوں، گھر کی کنیزوں اور وطن کی ہواؤں کا سلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتا ہے اور عرض گزارتا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر کے بچے دونوں ہاتھ اُٹھا کر سلام کہتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کی سبھی کنزیں دست بستہ کھڑی تھیں۔ شاعر وطنِ عزیز کے مشرقی بازو کے کٹنے کا المیہ بھی رحمتِ عالم کے حضور پیش کر کے شق القمر کی مقدس حقیقت کا انجام پھر سے دیکھنا چاہتا ہے۔ شاعر خاکِ وطن کے آنسو بھی طشتِ ہنر میں سجا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں رکھنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔
غلامانِ محمد کا حصارِ آہنی ہے یہ
وطن کے واسطے جتنی بھی ممکن ہو دعا لکھنا
جھوم کے اٹھے گھٹا ارضِ محمدؐ سے ریاض
شہرِ اقبال کی مٹی کا مقدر جاگے
میرے بچوں کو وراثت میں ملے حبِ رسولؐ
یہ اثاثہ بعد میرے بھی تو گھر میں چاہیے
ریاض کی نعمت میں استغاثے کا انداز نمایاں ہے۔ وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی دکھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدالتِ عظمی میں پیش کر کے نظرِ کرم کا ملتجی ہے، آج اُمتِ مسلمہ ان گنت مسائل کا شکار ہے اور بیشمار مصائب میں مبتلا ہے اور کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں۔ ریاض کی نعت کا اساسی رویہ بھی اسی ملی کرب اور تڑپ سے ابلاغ پاتا ہے۔ اس کی آنکھ ملتِ اسلامیہ کی زبوں حالی پر خون کے آنسو روتی ہے اور وہ اپنے آقاؐ کے حضور اتنا ہی کہہ پاتا ہے کہ یارسول اﷲ غلام زادوں پر بڑا بھاری وقت ہے۔ اس کی آواز رندھ جاتی ہے۔
قبائے امتِ مسلم سے خون ٹپکتا ہے
ریاض نے ہر قدم پر احساسِ غلام کو زندہ رکھا ہے، اس کا شعور غلامی عقیدت کے انہی گہرے پانیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
زنجیر سرہانے رکھ کر میں اسی سوچ میں ڈوبا رہتا ہوں
جب شہرِ مدینہ آئے گا دیوانے کا عالم کیا ہو گا
ریاض کی نعتیہ شاعری میں مدینے سے دور رہ کر بھی حضوری کی کیفیتوں کی سرشاری ملتی ہے اسی کیفیت کے زیر اثر اس کا وجدان پکار اُٹھتا ہے:
جب میں پہنچوں گا مدینے کے گلی کوچوں میں
ایک عالم مرا پہلے سے شناسا ہو گا
بلندی کی طرف پرواز کر جائے مری مٹی
مجھے تو فطرتاً بھی ہے سرِ ریگِ رواں رہنا
رستہ کسی سے پوچھنا توہین ہے مری
ہر رہگذار شہر پیمبرؐ کو جائے ہے
آدمی تھک ہار کر اُنؐ کو پکارے گا ریاضؔ
اُنؐ کے دامانِ کرم کی انتہا بھی دیکھنا
میں اجالوں کا مسافر ہوں کہاں جاؤں حضورؐ
ہر طرف دیوارِ شب ہے راستہ کوئی نہیں
’’زرِ معتبر‘‘ جدید اردو نعت کا ایک معتبر حوالہ ہے، ریاض نے نظم معریٰ میں بھی اچھے خاصلے تجربے کئے ہیں اور جدید نعت کے اساسی رویوں کی بنیاد رکھی ہے کو مٹ منٹ، یکتا و تنہا، وژن، نئے دن کا سورج، حصارِ گنبدِ ہجر کی پہلی صدا اور دوسری نظموں کو اپنے اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہوں۔
ریاض حسین چودھری نے نعت میں ایک عجیب و غریب پیرائے کی طرح ڈالی ہے کہ مدح کی سرسبز وادیوں میں گھومتے ہوئے اُس کا دھیان عصری آشوب کی طرف مبذول ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں وہ حضرت رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اذنِ گزارش طلب کرتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے اس عمل میں شاعر کی طبیعت کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے، جبکہ اس کا اصل مقصود طلبِ رحمت ہوتا ہے۔ ایک نعتیہ غزل میں مختلف مراحل کی صورتیں یوں بیان ہوئیں ہیں۔
اُسی کا چہرہ نظر نظر ہے، اُسی کا جلوہ سحر سحر ہے
کتابِ دل کے ورق ورق پر اُسی کی سیرت لکھی ہوئی ہے
طلوعِ مہر حرا سے ٹوٹا حصارِ شب کا نظامِ باطل
تمدنوں کی جبیں کی کالک اُسی کے قدموں کو ڈھونڈتی ہے
حضورؐ! اپنے غلام زادوں کو اذن بخشیں گزارشوں کا
فصیلِ شہرِ دُعا پہ میری صدا بھی آکر ٹھہر گئی ہے
مرس وطن کی گلاب گلیوں میں رنگ و بو کے کھلیں دریچے
سپاہِ برگِ خزاں اِدھر بھی اُدھر بھی ڈیرے جما رہی ہے
اسی انداز کی کئی نعتوں میں عصری مسائل کا اظہار بہت تفصیل کے ساتھ ہوا ہے۔ ایک نعت کے چند اشعار دیکھیے ؎
اس کڑی دھوپ میں مَیںترے ؐنام کی سبز چھاؤں کو پرچم بناتا
چلوں
یانبیؐ! یہ سفر میرا جاری رہے طشت عرضِ ہنر کا سجاتا چلوں
یامحمدؐ! اجازت اگر ہو مجھے تو رقم: میں کروں ظلم کی داستاں
چشمِ تر میں جو محفوظ ہیں اب تلک آنسوؤں کے وہ موتی گراتا چلوں
زخم اپنے دکھاتا چلا ہوں مگر بوجھ اتنا ندامت کا ہے روح پر
بارگاہِ نبیؐ میں پہنچ کر تو میں دونوں ہاتھوں سے منہ کو چھپاتا چلوں
یہ بھی کہتا چلوں سرورِ دو جہاں تیری امت سرِ بزم ہے بے نشاں
آگ ہی آگ ہے اور تری بستیاں راکھ کس کس کی جھک کر اٹھاتا چلوں
ایسے گمبھیر حالات اور بے ثمر موسموں میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر و فکر شاعر کو شاداب فضا مہیا کر کے غموں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
اِک اُنؐ کے ذکر سے ہے گلستاں میں دلکشی
ورنہ یہ عہد پھول کو پتھر بنائے ہے
موسم کے بانجھ پن سے ہے وہ شخص بے نیاز
جو کشتِ جاں میں فصلِ محبت اُگائے ہے
شاعر کا ایمان ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا ہی اُس کے نطق و نوا کے سارے قفل کھولتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک دعاؤں کے طاقچوں کو ہمیشہ روشن رکھتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذاتِ بابرکات ہر عہد کے انسان کو تشخص عطا کرتی ہے۔
مرے نطق کے قفل کھولے ہیں تو نے، مجھے اذن اپنی ثنا کا دیا
ہے
مرے زنگ آلود افکار لے کر، مجھے تو نے ہی حرفِ تازہ دیا ہے
تراؐ نام طاقِ دعا میں ہے روشن، ازل سے ابد تک یہ روشن رہے گا
کہ تونے رُسولِ خداؐ ہر صدی، ہر زمانے کے انسان کو چہرہ دیا ہے
حاضری و حضوری کی تڑپ (جسے میں حضوری ہی کی صورتیں قرار دیتا ہوں) ریاض حسین چودھری کی نعت کا ایک اہم مضمون ہے جسے شاعر کی جدت پسند طبیعت نے جُداگانہ کیف و اثر بخشا ہے۔
ریاض حسین چودھری نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی بیکراں برکتوں اور لازوال رحمتوں کو کئی رنگوں میں موضوعِ سخن بنایا ہے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ اطہر کی بوقلمونی اور آفاق گیری کو سر نامۂ بہار اور منبعٔ ہر روشنی قرار دیتا ہے۔ اُس نے زندگی کی اعلیٰ اقدار اور کائنات ِ رنگ و بو کے جمال و کمال کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے قدموں سے فیضیاب ہوتے محسوس کیا۔ اُس نے سیّدِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف عظیم انسان ہی نہیں، ضمیرِ قرآن کہا ہے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابد تک کے لیے رہنما ہیں۔
ریاض حسین چودھری کی نعت کے تمام استعاروں کا خمیر دین و آئینِ رسالت کے ساتھ ساتھ، عہدِ جدید کے معتبر حوالوں سے اُٹھا ہے اور ان میں تقدس بھی ہے اور تازہ کاری بھی، اُس کا اسلوب اردو شاعری کی تمام تر جمالیات سے مستنیر ہے اور اسے جدت و شائستگی کا معیار قرار دیا جاسکتا ہے۔ یوں ’’زرِ معتبر‘‘ اردو نعت کی روایت میں ایسا عہدآفریں اضافہ ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
حفیظ تائب
16 اپریل 1995ء