فلیپس

زرِ معتبر

احمد ندیم قاسمی

گذشتہ ربع صدی میں ہمارے ہاں نعت نگاری نے بہت فروغ پایا ہے۔ جن شعراء نے اس صنف سخن میں ہمیشہ زندہ رہنے والے اضافے کیے ہیں ان میں ریاض حسین چودھری کا نام بوجوہ روشن ہے۔ اس دور کے سب سے بڑے نعت نگار حفیظ تائب، نیز ایک اور اہم نعت نگار حافظ لدھیانوی کی طرح ریاض حسین چودھری نے بھی آغاز غزل سے کیا مگر اس کے بعد جب نعت نگاری شروع کی تو غزل کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا مگر یہ اپنی اپنی صوابد ید کا معاملہ ہے۔

ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ جب نعت کا آغاز کرتے ہیں تو ان پر وارفتگی اور سپردگی کی ایسی کیفیت چھاجاتی ہے جسے وہ ہر ممکن حد تک جاری رکھنا چاہتے ہیں اور نعت یا نعتیہ نظم یا نعتیہ قصیدے کو انجام تک پہنچانے کو ان کا جی نہیں چاہتا۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کیساتھ انتہائی محبت اور انتہائی عقیدت کی غماز ہے اور اس حقیقت پر شاید ہی کسی کو شبہ ہو کہ ریاض چودھری اس دور کا ایک بھر پور نعت نگار ہے۔ ’’بھر پور‘‘ کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے، اس نعت نگار کے کلام میں محبت کی سر شاری بھی ہے، لفظ اور لہجے کی موسیقی بھی ہے اور پھر وہ حد ادب بھی ہے جو نعت نگاری کی اولین اور بنیادی شرط ہے۔

’’زر معتبر‘‘ ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کے اس دور سے تعلق رکھتا ہے جو اس کی 1985ء تک کی تخلیقات پر محیط ہے بعدکے دس برس کی نعتوں کا مجموعہ الگ سے شائع ہو گا۔’’زرِ معتبر‘‘ کا مطالعہ نعتیہ شاعری کی دلآویزیوں کے علاوہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں شاعر کی ابتدائی کاوشوں سے لے کر اس زمانے تک کی نعتیں شامل ہیں جب اس کا فن عروج کی اس بلندی کی طرف رواں تھا جو اس نے کمال استقامت سے آخر کار پالی۔ میں اس کے فن کی مزید ترقی کیلئے دعا کرتا ہوں۔

رزقِ ثنا

حفیظ تائب

جدید اردو نعت کا کوئی مختصر سے مختصر تذکرہ بھی ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کا بھرپور حوالہ دئیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اُن کا شمار عہدِ جدید کے صفِ اول کے نعت نگاروں میں ہوتا ہے۔ ریاض نے نہ صرف جدید نعت میں افکارِ تازہ کی نمود کے کئی مقفل دروازوں کو کھولنے کا اعزاز حاصل کیا ہے بلکہ مضامینِ نعت کو شعورِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک ایسا اجتہادی کارنامہ بھی سر انجام دیا ہے جو لمحۂ موجود ہی میں نہیں دورِ آئندہ میں بھی تشکیک و ابہام کی گرد آلود فضا میں مینارۂ نور ثابت ہو گا۔ 1995میں زرِ معتبر کی پیشوائی کے وقت میں نے لکھا تھا کہ زرِ معتبر جدید نعت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔’’رزقِ ثنا‘‘ میں شامل نعتیہ کلام کا تنوع جو ہیئت تک ہی محدود نہیں بلکہ شاعر کی سوچ کے ہر زاویے پر بھی محیط نظر آتا ہے، میرے اس دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔’’رزقِ ثنا‘‘ کے ورق ورق پر اکیسویں صدی کی نعت کے خد و خال واضح ہوتے دکھائی سے رہے ہیں۔ ان خدوخال کے پیچھے روایت کا تسلسل بھی اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ کار فرما ہے۔

جدید حسیت کے حوالے سے ریاض حسین چودھری کی نعت کے تہذیبی پس منظر کا ابلاغ اپنے ہم عصروں میں انہیں منفرد اور نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ ان کی ’’آواز‘‘ آوازوں کے اس جنگل میں صاف پہچانی جا سکتی ہے۔ شاعر تخلیقی لمحے کے تعاقب میں رہتا ہے۔ جب یہ لمحہ گرفت میں آتا ہے تو کشتِ لوح و قلم میں بادِ بہاری چلنے لگتی ہے اور ریاض کی نعت میں اس بادِ بہاری کی نشان دہی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

1857 کی جنگِ آزادی کے بعد بے پناہ ریاستی جبر کے ردِ عمل کے طور پر اسلامیانِ ہند میں جو عصری اور ملی شعور پیدا ہوا تھا اس عصری اور ملی شعور کی تہہ در تہہ کئی پرتیں پیرایۂ نعت میں بھی کھلنے لگی تھیں۔ جدید اردو تاریخ کے اسی آشوب کے مختلف پہلو سامنے لاتی ہے۔ اس پر آشوب فضا میں ریاض کے مزاحمتی رویے کا اظہار بڑے بھرپور انداز میں ہوا ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ اظہار جمالیاتی قدروں کی پائمالی کا باعث نہیں بنا۔ ریاض کی نعت کو جدید تر اسلوب کا ایک معتبر اور مستند حوالہ قرار دیتے وقت ان کا یہی احساس ِ جمال جو تغزل کی آبرو ہے میرے پیشِ نظر ہے۔

ریاض حسین چودھری کی اقلیمِ نعت تاجدارِ کائنات کی غلامی کے گہرے پانیوں میں دوبی ہوئی ہے۔ سرشاری اور سپردگی کا کیفِ دوام اول سے آخر تک ان کی شعری فضا میں برقرار رہتا ہے۔ غلامی کا عمامہ باندھے وہ اپنے حضور کی بارگاہِ بیکس پناہ میں انفرادی اور اجتماعی تمام مسائل اور مصائب کو پیش کر کےدربارِ مصطفوی سے ہدایت کی روشنی کے منتظر رہتے ہیں۔ درِ حضور کو امید کا آخری مرکز قرار دے کر وہ پوری کائنات کے لئے حضور کے نعلینِ اقدس کو سائبانِ کرم سے تعبیر کرتے ہیں۔ طاقِ جاں کے ہر گوشے میں مدحتِ رسول کے چراغ جلانے کی سعی کرتے ہیں۔ ریاض کی نعت دراصل تحریکِ عشقِ مصطفےٰ کے نئے کاروان کا وہ پرچم ہے جو حلیفانِ حق کو ولولۂ تازہ عطا کرتا ہے اور جسے دیکھ کر حریفانِ حق پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔محاذِ نعت پر متانت، سنجیدگی اور شائستگی کے مؤثر ہتھیاروں سےدادِ شجاعت دینا یقیناً ایک غیر معمولی بات ہے اور ریاض حسین چودھری کی نعت اس غیر معمولی مرحلے کو پورے اعتماد سے طے کر کے فتوحات پہ فتوحات حاصل کر رہی ہے۔

رزقِ ثنا

ڈاکٹر خورشید رضوی

جن معاصرشعرا نے خاص نعت کے حوالے سے شناخت پیدا کی ان میں جناب ریاض حسین چودھری کا نام ایک معتبر حیثیت رکھتا ہے۔ ذوقِ نعت اُن کے خمیر میں رچا ہوا ہے۔ چنانچہ خود انہی کے الفاظ میں ’’مجھے نہیں خبر کہ کب منصبِ نعت گوئی کا زائچہ ہاتھ پر رقم ہوا۔‘‘1985 میں ریاض حسین چودھری آستانۂ رسالت پر حاضری سے سرفراز ہوئےاور دس برس بعد 1995 میں جب اُن کا اولین مجموعہ ٔ نعت ’’زرِ معتبر‘‘ شائع ہوا تو انہوں نے اس کی حد بندی اسی شرفِ حاضری تک کے زمانے سے کی اور وہی نعتیں اس میں شامل کیں جو قریب قریب سبھی مواجہ شریف میں پیش کئے جانے کے شرف سے مشرف ہو چکی تھیں۔ حاضری کے بعد سے اب تک، انیس برس کے عرصے میں جو کچھ انہوں نے کہا اس کا ایک انتخاب دوسرے مجموعے ’’رزقِ ثنا‘‘ کی زینت ہے۔

ریاض حسین چودھری کی نعت بنیادی طور پر اس والہانہ جذبے سے عبارت ہے جو ان کے لئے زادِ سفر اور وسیلۂ بخشش کی حیثیت رکھتا ہے اور انہیں ’’حسّان و کعب و جامی و بوصیری و رضا‘‘ کے قبیلے سے مربوط کرتا ہے تاہم اس جذبے میں عصری مسائل کے شعور اور آشوبِ ملت کے احساس کا وہ مؤثر امتزاج بھی شامل ہے جو انہیں آج کے ایوانِ نعت میں نمائندہ حیثیت عطا کرتا ہے۔

’’رزقِ ثنا‘‘ کا خیر مقدم میرے قلم کے لئے باعثِ عزت ہے۔

کشکولِ آرزو

ڈاکٹر فرمان فتح پوری (کراچی 28 ستمبر 2001)

’’زرِ معتبر‘‘، ’’رزقِ ثنا‘‘(صدارتی اور صوبائی ایوارڈ یافتہ)، ’’تمنائے حضوری‘‘ اور ’’متاعِ قلم‘‘ کے بعد ’’کشکولِ آرزو‘‘ ریاض حسین چودھری کا پانچواں نعتیہ مجموعہ ہے۔ نعت گوئی کے حوالے سے میں نے ریاض حسین چودھری کے دل نشیں اسلوب سے گہرا اثر لیا ہے اور اس اثر کے تحت وجدانی طور پر جو کلماتِ نقد سامنے آ گئے ہیں انہیں سپردِ قلم کر رہا ہوں۔

ریاض حسین چودھری کو شرفِ نعت گوئی منجانب اللہ ملا ہے۔ یہ عطیۂ خداوندی اور توفیقِ الٰہی ہے، کسب و ریاضت سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، یہ صرف اور صرف حضورِ اکرم سے والہانہ اور مجذوبانہ عشق کرنے والوں کو ملتا ہے۔یہ انہیں وافر مقدار میں میسر ہے اور اس دولتِ بیدار پر ریاض حسین چودھری جس قدر ناز کریں کم ہے۔ وجدان و عشق کی کارکشائی۔ ۔۔۔۔شعر گوئی۔ ۔۔۔۔ خصوصاً نعت گوئی کے باب میں مسلّم ہے اور ریاض کے ہاں نعت گوئی کا یہی وصفِ جمیل دامنِ دل کو کھینچتا ہے۔

ریاض کے موضوع، خیال اور اسلوب سب کے سب دلکش و روح پرور ہیں، خاص کر ان کی نعتیہ منظومات قلب و روح کے ساتھ ذہن کو بھی خوشگوار حیرت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے انہیں موضوع نعت کو سماجی و سیاسی اور تاریخی و تمدنی حالات سے منسلک کر کے قومی و بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کا غیر معمولی ملکہ عطا فرمایا ہے۔ اس نعمت وہبی پر میں شاعر ِ ’’کشکولِ آرزو‘‘ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

کشکولِ آرزو

ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی (کراچی، 31 اکتوبر 2001)

مجھے تو ریاض حسین چودھری کا پورا وجود مصروفِ نعت گوئی نظر آتا ہے۔ اُن کا تخیل اور مشاہدہ ہر جلوۂ رنگ و نور میں نبی اکرم کے خدوخال کو تلاش کرتا ہے۔ ان کے ہاں الفاظ اور ترکیبیں (پازیبِ زر، ارضِ شعور، ذرۂ ارضِ بدن) رقص کرتی اور دف بجاتی نظر آتی ہیں۔ ان کا شعورِ نغمہ ایک غیر ارضی استعارہ بن گیا ہے۔

ریاض حسین چودھری عہدِ حاضر کے منظر نامے اور خرابے میں اپنی ملت کا استغاثہ کس آبلہ صفتی کے ساتھ سرورِ کون و مکاں کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ اقبال نے تو طرابلس کے شہیدوں کا لہو اپنے جامِ فن میں اپنے آقا کے حضور پیش کیا تھا اور ریاض حسین چودھری تن ہمہ داغ داغ شد پینہ کجا کجا نہم۔ چنار کی آگ، لہو لہو ارضِ اقصیٰ، سر برہنہ امت کی بیٹیاں، پیکرِ ایشیا کے قلب …..افغانستان کے شعلے…..ریاض کی نعت سرورِ دل و جاں کے نقوش کی تابانیوں کے ساتھ ان تمام حقائق کا آئینہ خانہ بھی ہے۔ اُس کی نعت حدیثِ دل بھی ہے، مرثیۂ ملت بھی اور مجاہد کی یلغاربھی، وہ بڑے اعتماد کے ساتھ دھیمے لہجہ میں سرکار سے کہتا ہے:

حضور جبرِ مسلسل کے باوجود اب تک
گرا نہیں ہے غلاموں کے ہاتھ سے پرچم

اور انشا اللہ! ربِ محمدﷺ اکیسویں صدی عیسوی کو اسلام کی صدی بنا دے گا اور آنے والی صدیوں کو بھی سبز رنگ عطا کرے گا…..اور اس میں دوسرے عناصر کے ساتھ ریاض حسین چودھری کی آواز کا بھی دخل ہو گا۔

زم زمِ عشق

راجا رشید محمود

’زم زمِ عشق‘‘ میں گدازِ محبت نے ندرتِ تخلیق کو جنم دیا ہے اور سخن گستری فکر و نظر کی تازگی کی غماز ہے۔ یہاں ذہن وقلب کا متوازن امتزاج مشاہدات و تجربات کی فکر انگیز آمیزش لیے شعر کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔

ارتباطِ جذب و تخیل اور روایت و جدّت کے درمیان توازن کی جو صورت ریاض حسین چودھری کے ہاں نظرآتی ہے، نعت کے ماحول میں انفرادیت رکھتی ہے۔ قرآنی لفظیات واصطلاحات اس سفر میں ان کی رہنما ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ خالق کریم ہے تو حضور ﷺ بھی کریم ہیں (الحاقہ) وہ حق ہے (طہ) تو یہ بھی حق ہیں(آل عمران) ریاض حسین چودھری اللھم ایدہ بروح القدس کے زیر سایہ قدم اٹھاتے اور قدم بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ یہاں مدیح سرکار (علیہ الصلوۃ والسلام) میں کہا گیا ہر لفظ تخصص معنویت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جس سے ہر مہملیت ہزیمت آشنا نظر آتی ہے۔

شاعر کا قلم قرطاس عقیدت پر یوں سربہ خم ہے کہ سر اُٹھانے کو معصیت شعاری پر محمول کرتا ہے۔ وہ نعت کے معیار اور وقار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے دل کے بے داغ کینوس پر ولا دو اخلاص کی سکینت مآب تصویریں بناتے اور انہیں مجموعہ بائے نعت کی صورت دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں رافت اور رحیمی کے طلبگار محسوس ہوتے اور ہمہ اوقات دربار مصطفوی کی طرف اٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی نعت کا ہر مصرع عقیدت کی کوکھ سے جنم لیتا اور توجہ محبوب کبریا (علیہ التحیۃ والثناء) کی گود کے لیے ہمکتادکھائی دیتاہے۔

وہ کوئے سرکار ﷺ سے دریوزہ گری کا رشتہ جوڑے رکھنے پر مصر ہیں کہ ’’جاءوک‘‘کا الوہی حکم اسی کا متقاضی ہے۔ یہاں دل کی زبان میں خون جگر کی روشنائی سے داستان ولامر قوم نظر آتی ہے۔

’’زمزم عشق‘‘ نعت کے حوالے سے قرآن کے بیان کردہ حقائق کے انجزلت کی مفکرانہ کاوش ہے۔

طلوعِ فجر

زاہد بخاری

ریاض حسین چودھری کا شمار جدید اردو نعت کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے نصف صدی کے تخلیقی سفر کے بعد آپ کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں۔ ’’زر معتبر‘‘سے ’’طلوع فجر‘‘ تک کا سفرِ دل نواز مدحت رسول ﷺ کی خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔ منفرد اسلوب ان کی تخلیقی پہچان کی بنیاد بنا ہے۔ حرف پذیرائی انہی دلکش موسموں کی عطا ہے۔ ہر لمحہ درِ حضور ﷺ پر عالمِ وجد میں گزرتا ہے۔ تصور مدینے کی معطر گلیوں میں نقوش پاکی تلاش میں رہتا ہے……اور یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔

وجہ ِتخلیق کائنات کا دنیا میں ظہور خالقِ کون و مکاں کا اپنی مخلوقات پر احسان عظیم ہے۔ حضور ﷺ کو تمام عالمین کے لیے رحمت بنایا گیا ہے۔ آپ کی آمد پر عرش و فرش برسات نور میں نہا گئے۔ گلشنِ ہستی کی ڈالی ڈالی خوشی سے جھوم اُٹھی اور موجودات کا ذرہ ذرہ وجد آفریں کیفیت سے سر شار ہو گیا۔ نبی آخرالزماں ﷺ کے میلاد کی مناسبت سے بہت سے شعرانے آپ کی بارگاہ اقدس میں عقیدت و محبت اور درودوسلام کے نذرانے پیش کیے ہیں جن میں جناب ریاض حسین چودھری کو خاص مقام حاصل ہے۔ انہوں نے میلاد حضور کے سلسلہ میں اپنی طویل نظم ’’طلوعِ فجر‘‘ کے نام سے قلمبند کر کے بے مثال ولا زوال کام کیا ہے جس کا صلہ انہیں بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے ضرور ملے گا۔ اس مجموعۂ کلام میں دلی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ ترکیب لفظی، فصاحت و بلاغت اور خیالات کی تازگی نے حسن شعری کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔

’’طلوع فجر‘‘ریاض حسین چودھری کا 9واں مجموعہ نعت ہے جس کا موضوع 12 ربیع الاول کی صبح سعادت ہے۔ ولادت پاک کے حوالے سے سیرت مطہرہ کی دل آویزیوں کا بیان ہے۔ ریاض نے 500 بنود پر مشتمل اس طویل نظم کے لیے نظم معریٰ کا انتخاب کیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اکیسویں صدی میں انہوں نے نظم معریٰ کو دوبارہ زندہ کیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ نظم کے ہر بند میں 12 ربیع الاوّل کی مناسبت سے 12 مصرعے ہیں۔ ہر بند کا آغاز اس مصرع سے ہوتا ہے:

’’افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں و ہ رسول ﷺ‘‘

کون رسولﷺ؟ آقائے مکرم کی سیرتِ مقدسہ سے روشنی کشیدکی گئی ہے۔ ریاض نے نظم معریٰ کی تکنیک میں تھوڑی سی تبدیلی کی ہے۔ یعنی آخری دو مصرعوں کو ہم قافیہ اور ہم ردیف بنا کر انہیں ایک مکمل شعر کی صورت دی ہے اور کوشش کی ہے کہ بند کے نفس مضمون کو اس شعر میں سمیٹ لیا جائے۔

’’طلوع فجر‘‘ عشق سرکار کی ایک لازوال شعری دستاویز ہے جس کا ایک ایک مصرع محبت رسول کی خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔ شاعر نے کہیں بھی ابلاغ کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اللہ کرے ان کا خوبصورت شعری سفر تادیر جاری و ساری رہے اور ان کے گلہائے سخن جہانِ شعر و ادب کو مہکاتے رہیں۔ آمین۔

آبروئے ما

سید صبیح رحمانی

اردو نعت میں اسلوب کی یکسانیت بہت نمایاں ہے جبکہ عصرِ حاض کا جدید ذہن رکھنے والا قاری کچھ نیاپن چاہتا ہے اور طرز بیاں کے لئے آفاق کا متلاشی ہے۔ وہ رسمیات کی سطح سے اوپر اٹھ کر آج کے انسان کی حسیات اور جدید شاعری کی لفظیات سے آراستہ ایک ایسی نعت کا ماحول چاہتا ہے جو عقیدت کی روحانی فضا میں رہتے ہوئے عصری مسائل کا شعور بھی رکھتی ہو اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے سیرت سرور کونین کی روشنی میں عملی قوت کو بھی بیدار کر سکے اور ان مسائل کے حل کی طرف بھی رہنمائی کرے۔ساتھ ہی ساتھ امت واحدہ کے تصور کو قوی کرتے ہوئے ملت میں زندگی کی حرارت اور اسلام اور بانئ اسلام کے پیغام کی حقانیت کو عام کرنے کی دعوتی ضرورت کو بھی پورا کرتی ہو۔

اس تناظر میں جب ہم ریاض حسین چودھری کی نعتیہ تخلیقات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری ان معیارات پر پورا اترتی ہے۔ان کے کلام میں بے کراں وارفتگی، والہانہ پن، سرشاری، تازکاری اور گہری ارادت کا سمندر موجزن ہے اور ان کا قومی و ملی احساسات سے لے کر انسانی اور آفاقی تصورات اور نظریات پیش کرنے کا سلیقہ بھی خاصا مختلف ہے۔ ریاض حسین چودھری کی زندگی اور تخلیقات دونوں اس بات کی آئینہ دار ہیں کہ وہ کبھی تشکیک کی زد میں نہیں آئے۔انہیں کبھی خرد کو رہنما بنانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ انہوں نے زندگی کے ناہموار راستوں سےگزرتے ہوئے کسی نئی صداقت کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ غارِ حرا سے ابھرنے والی صداقت پر ان کا ایمان پختہ ہے اور اسی روشنی کو وہ ہر صداقت کا ماخذ تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے پورے کلام میں ان کے یقین کی یہ روشنی جابجا پھلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

’’آبروئے ما‘‘ بھی انہی سرمدی روشنیوں کا مرقع ہے۔ یہ ان کا 10واں نعتیہ مجموعہ ہے۔ ان کے ہاں ایک اور چیز جو قاری کی توجہ کو جذب کرلیتی ہے وہ ’’مکالمہ‘‘ ہے جو کبھی انہیں دربار رسالت مآب میں استغاثہ، استمداد اور التجا و التماس اور اظہار تمنا پر اکساتا ہے اور کبھی خود کلامی کی فضا میں لے جاتا ہے جہاں ان کی شکرگذاری اور ایک امتی کا احساس ذمہ داری ان کی فکر کے دوش بدوش ہوتے ہیں :

چومتا رہتا ہوں اپنے ہاتھ کو میں اس لئے
ہاتھ کی ساری لکیریں راستے طیبہ کے ہیں

آندھیوں کو سرکشی سے باز رکھنا ہے ریاض
یہ چراغِ آرزو جلتے ہوئے طیبہ کے ہیں

نئی اردو نعت کو لہجے کی تازگی، ہنرمندی، جبر اندروں کی تپش کے اثرات اور اظہار کی سچائیوں سے ہمکنار کرنے والے شعرا میں ریاض حسین چودھری کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔