خلدِ سخن میں نعتِ ریاض (پروفیسر محمد اکرم رضا)- خلد سخن (2009)
یہ میرا نہیں بلکہ بزمِ فطرت کا فیصلہ ہے کہ رحمتِ خداوندی جب کسی صاحبِ ایمان کے دل کے خلوت کدوں میں پوشیدہ عقیدتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدت کو اظہار کا متلاشی دیکھتی ہے تو اسے نعت گوئی کی توفیق عطا کر دیتی ہے۔ نعت فہمی سے نعت گوئی تک کے مراحل نعت گو پر یوں آشکارا ہوتے ہیں کہ اس کا وجدان حیرت و تحیر کے بحرِ بیکراں میں گم ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کیا یہ میرا ہی قلم ہے جس کی نوک سے نعت کے لالہ و گل بہاروں کا تمام تر حسن سمیٹ کر پھوٹ رہے ہیں۔ نعت دل کے جبلِ نور سے اُبھرے یا افکار کے مطلعِ تاباں سے طلوع ہو، اس کے حسن کی ہمہ گیری اپنا اثاثۂ عشق آنے والی صدیوں تک پھیلا دیتی ہے۔ یہ بندۂ عاجز کے بس کی بات کہاں؟ یہ بشرِ کج مج بیان کی فکرِ عاجز کی آواز کہاں؟ یہ فقط اور فقط عطائے خداوندی ہے، عنایتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جب عنایتِ الٰہی اور لطفِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آہنگ ہو کر کسی کے فکر و نظر میں سما جاتے ہیںتو پھر وہ جو کچھ بھی کہتا یا لکھتا ہے تو وہ زمانے کی نگاہ میں مدحت و توصیفِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جامع ترین تعریف میں ڈھل جاتا ہے جبکہ شاعر اپنی عجز بیانی کے حصار سے باہر نکلنے کو بھی بے ادبی تصور کرتا ہے۔ اصحابِ نظر کے مطابق جب ایک طرف توصیفِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ستارے بکھر رہے ہوں اور دوسری جانب ستارے بکھیرنے والا ادب و احتیاط کے دامن میں پناہ لیے ہو تو یہی وہ لمحۂ مسعود ہوتا ہے جب نعت باطنی جذبات کو ظاہری اسلوب عطا کرتی ہے۔
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
ریاض حسین چودھری ایسے ہی خوش بخت ہیں جو ایک عرصہ سے نعت کہہ رہے ہیں۔ بعض اوقات تو ان کا اسلوب دیکھ کر بے اختیار احساس ہوتا ہے کہ یہ کہہ نہیں رہے ان سے کہلوایا جا رہا ہے، زہے قسمت، اگر ان لمحاتِ خوش بخت کا ادنیٰ سا حصہ بھی کسی کو دستیاب ہو جائے۔ ریاض حسین چودھری نعت میں کسی ریاض کے قائل نہیں بلکہ ممدوحِ نعت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطائے بیکراں کے تمنائی ہیں۔ ریاض کی ضرورت تو انہیں ہوتی ہے جو نغمہ پیرائی کے لیے کسی ساز کی تلاش میں رہتے ہیں یہ تو ایسے رہ نوردِ شوق ہیں کہ عشق و نیاز و شوق کے سانچے میں ڈھل کر ہی سب کچھ حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔ انہیں بجا طور پر احساس ہے کہ
عقیدت کی خموشی کو یہاں گفتار کہتے ہیں
یہ جذبہ ریاض حسین چودھری کے قلب و جاں میں مچلتا اور ان سے عقیدت کا بھر پور خراج لیتا نظر آتا ہے:
بفیضِ نعتِ رسولِ خدا ہے در آئی
بیان و نطق میں تخلیق کی توانائی
ہر ایک لفظ میں رکھتا ہوں آئنوں کا دماغ
مرے قلم کا مقدر ہے وصفِ زیبائی
حضور ؐ، آپ ؐ کا شاعر غلام ابنِ غلام
ردائے ابرِ شفاعت کا ہے تمنائی
…
بیان و نطق کی رعنائیوں کے جھرمٹ میں
لبوں پہ پھول کھلیں خوشبوئے عقیدت دیں
ورق کا چاک ہے دامن، قلم ہے افسردہ
حضورؐ، اپنی ثنا کی مجھے اجازت دیں
یہ آپؐ کی عطا کا مسلسل کمال ہے
ورنہ لکھوں میں نعت، مری کیا مجال ہے!
نعت کا لفظ اور نعت کا مفہوم و مدعا ریاض حسین چودھری کی شاعری میں اس کثرت سے دکھائی دیتے ہیں کہ ہر چہار طرف خوشبوئے نعت دل و جاں کو معطر کرتی نظر آتی ہے ورنہ کئی شعرا کے ہاں دیکھا ہے کہ لفظِ نعت یا مفاہیم نعت تلاش کرنے کا ارادہ کریں تو دقّتِ نظری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض تو نعت میں جدت طرازی کے اس مقام پر آ گئے ہیں کہ نعت کا لفظ یا مفہوم ہی عنقا ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس ریاض حسین چودھری اصحابِ نقد و نظر کے نزدیک نعت میں مسلسل مقصدیتِ فکر و نظر کا مظاہرہ کرنے والا غالباً واحد شاعر ہے جو نعت کے حسن کو کسی صورت بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ بلکہ نعت اُس وقت اپنے وجود کی عظمت کا ادارک بخشتی ہے جب نعت کے مفاہیم کو افکار کی زینت بنا کر صورت و سیرتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشنی لی جائے اور پھر اسے قرطاس و قلم کی زینت بنانے کا عزم کیا جائے۔ یہی عزم راہنمائے نعت بن جاتا ہے، نشانِ منزل کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور خاک نشینوں کو مہر و ماہ کی طلعتوں سے جلوہ ہائے نور کشید کرنے کا اندازہ عطا کرتا ہے۔
ریاض حسین چودھری نے ’’سلامٌ علیک‘‘ سے ’’زرِ معتبر‘‘ تک نعت نگاری کا ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ انہوں نے محض لفاظی کے لیے نعت نہیں کہی حالانکہ جو الفاظ نعت سے وابستہ ہو جائیں وہی زرِ معتبر ٹھہرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نعت ایک پیرایہ اظہار ہے جس میں شاعر بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں زمانے بھر کی مسرتوں کے گلاب ہی نہیں بلکہ حالات کی کوکھ سے اُبھرنے والے رنج و آلام بھی پیش کر سکتا ہے۔ وہ تغزل کا سہارا لے کر جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لمعہ افشانیوں کی کہکشاں بکھیر سکتا ہے۔ صورتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سدا بہار گلستانوں کی مہک سے زمانے کے مشامِ فکر کو معنبر کر سکتا ہے۔
ریاض حسین چودھری کا شمار اُن بلند ذکر شعرا میں ہوتا ہے جن کا آغاز غزل سے ہوا مگر جب نعت کے چمن زاروں میں پہنچے تو نعت کی صورت میں اپنے عہد کو معنبر کر گئے۔ تغزل ان کے ہاں بیان نہیں ہوتا بلکہ چٹکتی ہوئی کلیوں کی صورت میں پھوٹتا ہے، دلوں کے مطلع پر الہام کی صورت اپنے وجود کو ضو بخشتا ہے۔ تغزل تعریف کا محتاج نہیں بلکہ اشعار کی تاثیر انگیزی خود تغزل سے اپنی پہچان ڈھونڈتی ہے۔ ریاض حسین چودھری کے ہاں ایسی ہی بلند پروازی کا جائزہ لیجئے۔
طلوعِ مہر شفاعت سروں پہ چھائے گا
نہیں ہیں خوفزدہ ہمنوا قیامت سے
مشامِ جاں کو معطر کریں گے محشر تک
چنے ہیں پھول سمن زارِ شہرِ رحمت سے
…
دل میں خیالِ خلدِ مدینہ ہے اس لیے
دامن قلم کا چاند ستاروں سے بھر گیا
آداب حاضری کے تھے معلوم کب مگر
میں اپنے ساتھ لے کے یہی چشمِ تر گیا
…
سورج اُتر رہے ہیں فصیلِ شعور پر
نقشِ قدم کسی کا مری داستاں میں ہے
معراجِ آرزو ہے غبارِ رہِ حجاز
اوجِ خیال خاکِ درِ آستاں میں ہے
ریاض حسین چودھری کو بجا طور پر احساس ہے کہ وہ عصرِ حاضر میں جی رہے ہیں۔ زمانہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے زبان و بیان کے تقاضے بھی نئی بلند پروازیوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ خیالات کے لاہوتی پرندوں کی اڑان نئے آسمان تلاش کرتی ہے۔ گزشتہ ادوار کی تراکیب کے نطق سے نئی تراکیب اور نئے سے نئے استعارے، تشبیہات اپنے وجود کے شہود کے منتظر ہوتے ہیں۔ اگر شاعری کی حساسیت لفظ و آہنگ کی قید سے آگے نکل کر وقت کی تنگ نائیوں سے ماورا ہو چکی ہوتی ہے تو وہ احسن طریق سے ان تمام عصری جہتوں کو اپنے دامانِ نعت میں سمو لیتا ہے۔ وہ حالاتِ حاضرہ کے پر تو سے اُبھرنے والے واقعات و حوادث کا احاطہ کرتا ہے تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ نئے تقاضے تو نئے مفاہیم و مطالب کو جنم دیتے ہیں یہ محض لفظیت کا شکوہ یا شعروں کا عصری بانکپن نہیں ہے کہ جن کی بنا پر شاعر اپنے ادبی قد و قامت میں اضافے کا متقاضی ہوتا ہے بلکہ زبان و بیان کی عصری لَے کی تاثر انگیزی کو سمجھتا اور اس سے متعلقہ اجزائے ترکیبی کو اپنے اشعار کی ترجمانی کا ذریعہ بناتا ہے تو دراصل یہ نعت کی عصرِ حاضر میں ہمہ گیریت، جامعیت اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قبولیت و قربت کا تمنائی ہونے کا اہم ذریعہ ہے۔
بحمد ﷲ ریاض حسین چودھری کا شمار جدید فکر رکھنے والے اُن شعرائے نعت میں ہوتا ہے جنہوں نے عہدِ حاضر کے پیمانے میں خمستانِ حجاز کی مئے عقیدت ڈال کر اس کے نشہء شوق کو مزید اثر انگیز بنا دیا ہے۔ ان کے ہاں جدید دور اپنی پوری والہانہ تب و تاب کے ساتھ بول رہا ہے۔ نعت فقط شاعری نہیں بلکہ یہ تو وارداتِ قلبی کا اظہار ہے اور جب اس وارداتِ قلبی کو عصرِ حاضر کی جدتوں کی شرح کمال کی پہچان ہو جاتی ہے تو شاعر تو ایک طرف، قاری کے قلب و فکر میں نئی ہمہ رنگی، نیا جوش، نیا خروش اور جدید لہجے کی حرارت کی بدولت سوز و گداز کی محبوب تر کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
ریاض حسین چودھری کی کمندِ شوق سے نئی تراکیب و تشبیہات بمشکل ہی بچ کر نکلتی ہیں یہ جدید پیرایہ اظہارمیں نعت کے قدیم حسن کو اس شان سے سموتے ہیں کہ افکار جھوم جھوم اُٹھتے ہیں۔
فصلِ یقیں اُگے جلی کشتِ خیال میں
امت کھڑی ہے قریہء شامِ وصال میں
جیسے شعورِ نو سے کوئی واسطہ نہیں
حیران چشم تر ہے رہِ پائمال میں
کب سے گرفتِ حَبْسِ مسلسل میں ہیں، حضورؐ!
آلودگی کا زہر ہے بادِ شمال میں
…
اسی در پر ادب سے بال و پر اپنے رکھے جائیں
اسی در پر ابد تک ہمسفر میرے، پڑا جائے
صبا سرگوشیاں کرتی رہی ہَے بوئے گلشن سے
سجی ہے نعت کی محفل، وضو کر کے، رکا جائے
…
خلدِ طیبہ کے اے موسمِ دلکشا میری اجڑی ہوئی کشتِ جاں میں
اُتر
میرے ہونٹوں کی دہلیز پر پھول رکھ، چاند بن کر مرے آشیاں میں اُتر
وصل کی ساعتوں کی تمنا لئے، جی رہا ہے کوئی ہجر کے شہر میں
اے کرم کی گھٹا میرے آنگن میں آ، آنسوؤں سے لکھی داستاں میں اُتر
…
مرنے کے بعد بھی ہے عشقِ نبیؐ کا موسم
میری لحد میں اُترے یہ روشنی کا موسم
لب پر جہالتوں کے کانٹے اُگے ہوئے ہیں
شاخِ ثنا پہ مہکے اب آگہی کا موسم
شاعرِ ’’خلدِ سخن‘‘ کو رب کریم نے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ثنا گوئی کے لیے ہر دور میں ڈھل کر جدت طرازی کا سلیقہ وافر عطا کیا ہے وہاں یہ امر خاص طور پر قابلِ تحسین ہے کہ جدتِ ادا اور رفعتِ زباں و بیان کا کوئی سا پیرایہ اختیار کرتے ہوئے بھی انہوں نے ان مخصوص نظریاتی اور روحانی تقاضوں کو فراموش نہیں کیا جن سے نعت عبارت ہوتی ہے۔ تشبیہات و استعارات اور تراکیب میں جدتِ بیان اپنی جگہ مگر ریاض حسین چودھری کے ہاں نعت کے حوالے سے وہی سوز و گداز، ادب و احتیاط، والہانہ پن، خود سپردگی، عجز و نیاز مندی اور نامِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مر مٹنے کے جذبات پوری شان کے ساتھ ملتے ہیں جو اوائلِ سفر نعت ہی سے ان کی نعت کا امتیاز رہے ہیں۔ ان کے والہانہ پن کے انداز بے اختیار پڑھنے والوں کی آنکھوں کو عقیدت کا نم عطا کرتے ہیں۔ اس مقصد کی خاطر ان کے ہاں درود و سلام، ذوق و شوق، عقیدت و احترام کی بدولت تازگی، شگفتگی اور فکری تسلسل کے مظاہر اس کثرت سے ملتے ہیں کہ ان کی نعت گوئی اپنے کمال کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ لفظوں کے سوداگر نہیں بلکہ حسنِ عقیدت کے گہر ہائے گراں مایہ کے تمنائی ہیں۔ ان جواہرِ گراں بہا کو وہ اپنی خداداد جذباتیت سے حسنِ دوام عطا کرتے ہیں تاکہ گل و لالہ کے حسن سے رنگ و نور مستعار لینے کے بعد جب وہ انہیں بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نذر کرنے کی سعادت حاصل کریں تو پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چشمِ رحمت انہیں مستقبل کے نعت گووں کے لیے نشانِ راہِ عقیدت بنا دے، ملاحظہ کیجئے:
آرزو کے گھروندے بناتے ہوئے شہرِ طیبہ کی گلیوں میں جائیں
گے ہم
اور کسی کونے کھدرے میں اے ہمسفر! ایک چھوٹا سا گھر خود بنائیں گے ہم
ابرِ رحمت میں لپٹا ہوا ہے قلم، آبِ کوثر میں ڈوبی ہوئی ہے زباں
شہرِ حرف و بیاں کے مضافات میں پیڑ صلِّ علیٰ کے لگائیں گے ہم
…
ادب کا یہ تقاضا ہے بوقتِ حاضری، زائر
نگاہِ بے طلب سے لوحِ دل پر مدعا لکھے
میں ہر ساعت کے ہونٹوں پر گلابِ نعت رکھتا ہوں
بہارِ جاوداں میرے مقدر میں ثنا لکھے
…
کس وقت سر پہ، اُن کے کرم کا نہ تھا سحاب
کس وقت ہمرکاب شمیمِ سحر نہ تھی
ہر سانس کے تھا ہاتھ میں پرچم درود کا
مصروفِ نعت صرف مری چشمِ تر نہ تھی
ارضِ تمنا کی جذباتیت کس شاعرِ نعت کے پیشِ نظر نہیں رہی، نعت گو تو نعت کہتا ہی اس لیے ہے کہ رضائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منصب عطا ہو جائے مگر بات پیرایۂ سخن کی ہوتی ہے۔ تمنائیں تو سب کے لب پر مچلتی ہیں اور بندہ نواز سب کو نوازتا ہے مگر ریاض ؔ اُن خوش بختوں میں شامل ہیں جو عرضِ تمنا کرتے ہوئے عظمتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور کرتے ہیں اور پھر اپنی بے سر و سامانی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو جذبے مچل مچل کر بھی سمٹ جاتے ہیں، احساسات اُبھر اُبھر کر بھی اپنی بے چارگی پر شرمندۂ سخن ہو جاتے ہیں مگر جب حضور e کی بیکراں رحمۃ اللعالمینی کا تصور ادراک کی زینت بنتا ہے تو وہ سب کچھ کہہ سنانے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے جسے انہوں نے قوتِ اظہار رکھتے ہوئے بھی ادب و احتیاط کے تقاضوں میں سلا رکھا ہوتا ہے یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرم نوازی ہے کہ حوصلۂ سخن گوئی بھی دیتے ہیں اور نویدِ قبولیت سے بھی نوازتے ہیں۔ یہی وہ مقامِ شوق ہوتا ہے جب ریاض کے دل میں اپنی اور ملت کی پریشان حالیوں کے سر چشمے پھوٹنے لگتے ہیں کیونکہ وہ ایک زمانے سے بہتر جانتے ہیں کہ یہ وہ دربارِ کرم بار ہے جہاں بے نام جذبوں کو رعنائی قبولیت عطا ہوتی ہے اور یہاں ’’نہیں‘‘ کا تصور ہی نہیں ہے۔ ریاض کا دل ایک معصوم بچے کی طرح بلکتا ہے، ایک طائر بے پر کی طرح پھڑ پھڑا کر چشم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنایات میں کھو جاتا ہے۔ لرزتے ہاتھ، خمیدہ و سر نہادہ افکار ان کی تمناؤں کی دنیا کا ہر گوشہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کر دیتے ہیں:
چھپا کر آپؐ کا اسمِ گرامی اپنے سینے میں
میں شہرِ ہجر میں ہوں اور رہتا ہوں مدینے میں
گناہوں کی دھری ہیں گٹھریاں کتنی مرے سر پر
ندامت ہی ندامت ہے ندامت کے پسینے میں
…
شجر اک بے ثمر ہے اور مَیں ہوں یا رسول اﷲ
لہو میں تر سحر ہے اور مَیں ہوں یا رسول اﷲ
سرِ مقتل ہوئی ہے قتل انسانوں کی بینائی
نوائے نوحہ گر ہے اور مَیں ہوں یا رسول اﷲ
…
کوئی سکہ نہیں ہے جیب و داماں میں مگر پھر بھی
میں اَٹی سوت کی لے کر سرِ بازار رہتا ہوں
مری کشتی کو بھی اُمید کا ساحل نظر آئے
پسِ گرداب بہتا ہوں سرِ منجدھار رہتا ہوں
اپنا نوحۂ غم اور جذباتِ عقیدت بیان کرتے کرتے ریاض کو امتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آ جاتی ہے، وہ امت جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ محو دعا رہا کرتے تھے جس کی بخشش کا ذکر وقتِ وصال بھی لبوں پر تھا اور قیامت کے روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس کی بخشش کی فکر سب سے زیادہ دامن گیر ہو گی۔ ریاض امتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فسانۂ الم بھی سناتے ہیں تو خود کو الگ نہیں سمجھتے بلکہ ان کا جذبہ یہاں بھی امت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داستانِ رنج و اَلم بیان کرتے ہوئے نمایاں ہے۔ ذرہ صحرا سے، قطرہ سمندر سے اور پھول گلشن سے کس طرح الگ ہو سکتا ہے۔ ریاض کی عرض گزاری کا اندازہ دیکھئے، تڑپ ہے، سوز و گداز بھی ہے، والہانہ پن بھی ہے، آنسوؤں کی چمک بھی ہے، جذبات کی شدت کی لپک بھی ہے، امت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے بسی پر ہر شعر میں پوشیدہ کسک بھی ہے لیکن حوصلہ ہے تو یہی کہ اُن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ کہوں تو کس سے کہوں؟
آقا حضورؐ، صرف ضعیفی کے جرم میں
سر پر ہمارے تاجِ فضیلت نہیں رہا
رسوائیوں کی گود میں لپٹے ہوئے بدن
قول و عمل میں نورِ مشیت نہیں رہا
…
جلیں گے اپنی ہتھیلی پہ کیا دیے آقاؐ؟
ہر ایک سمت سے طوفاں نے آن گھیرا ہے
ہر ایک سمت ہوا نے کماں اُٹھائی ہے
ہر ایک سمت تضادات کا اندھیرا ہے
…
ازل سے اپنے مفادات کے جو قیدی ہیں
وطن میں ان کی امامت سے خوف آتا ہے
منافقت ہے رقم جن کے دستِ قدرت پر
حضورؐ، ان کی عدالت سے خوف آتا ہے
…
اپنی تاریخ کے ہم ہی قاتل ہوئے
داستانوں میں اب داستاں بھی نہیں
خونِ مسلم کی ارزانیاں اس قدر
خوں میں تر حرف و نطق و بیاں بھی نہیں
مقتلِ شب میں ہے امتِ بے نوا
آج پہلی سی طرزِ فغاں بھی نہیں
ریاض حسین چودھری بھی کئی دوسرے شاعروں کی طرح غزل سے نعت کی دنیا میں آئے۔ میں نے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ضوفشاں دیکھی ہے کہ غزل سے نعت کی طرف آنے والے کا رنگ ہی جدا ہوتا ہے۔ لوگوں نے انہیں لگ تھلگ خانوں میں بانٹ رکھا ہے حالانکہ غزل تو پیرایۂ سخن ہے جس میں دیگر مضامین رنگ و بو کی طرح نعت کی لامحدود وسعتیں بھی سمٹ آتی ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ غزل جب باوضو ہو جاتی ہے تو جانِ نعت کہلاتی ہے۔ ’’خلدِ سخن‘‘ میں یہی جمالِ نعت شعر شعر میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ مترنم بحریں، حسنِ گویائی بخشتے ہوئے مصرعے، رعنائی تغزل لٹاتے ہوئے اشعار، حسیں تر قوافی، طویل اور مختصر بحروں کا انتخاب کہیں ایجاز و اختصار کہیں بلاغت کی جہاں افروزیاں، مضمون آفرینی کی رفعتیں، سمندر کو کوزے میں سمیٹتے ہوئے مضامین، ندرتِ خیال، جدتِ زباں و بیان، غرض انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کی غزل گوئی نے گلستانِ نعت کی نکہتوں کا لبادہ اوڑھ کر دامانِ توصیفِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زر نگار بنانے کے لیے اپنے شب و روز کی تمام تجلیاتِ فکر نذر کر دی ہیں۔ طوالت کے خوف سے فقط دو اشعار نذر ہیں:
میری جبینِ شوق میں بھی جاگتے رہے
دہلیزِ مصطفیٰ کے مناظر تمام شب
گرتے رہے ہیں خیمہء افلاک سے ریاضؔ
کشکولِ آرزو میں جواہر تمام شب
وہ گھمبیر حالات اور بے ثمر موسموں میں امتِ مسلمہ کے لیے سایۂ رحمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلاش کر لیتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مرکز و محور ثنائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہی ثنا گوئی ان کے نطق و بیان کے قفل کھولتی اور ایوانِ نعت میں بہت سے پوشیدہ حسن اظہار کے منتظر شہ پارے منصہ شہود پر لاتی ہے۔
ریاض نے 1995ء میں شائع ہونے والے اپنے اوّلین نعتیہ مجموعہ ’’زرِ معتبر‘‘ میں تحدیثِ
نعت کے عنوان سے ایک خوبصورت تحریر رقم کی تھی جس کا اختتام ان فقرات پر ہوتا ہے:
’’ایک عجیب سی تمنا دل میں مچلتی رہتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی جب سپاس گزاری کا یہ سلسلہ
جاری رہے اور حشر کے دن جب ہجومِ تشنہ لباں میں مَیں بھی گم صم کھڑا ہوں تو حضور s
فرمائیں کہ آؤ ریاض آج بھی کوئی نعت سناؤ اور میں بڑھ کر اپنے آقا صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کو تھام لوں۔ ‘‘
شاید یہی آرزو ہے جس نے ریاض حسین چودھری سے نعت کے عنوان و موضوع اور مفہوم کے حوالے سے سینکڑوں اشعار کہلوائے ہیں۔ طویل و مختصر نعتیں اپنی جگہ مگر انہوں نے بطورِ خاص نعت کی لفظی معنویت کے حوالے سے اتنا کچھ لکھا ہے کہ اگر ایسے اشعار کا انتخاب کیا جائے تو لفظ نعت کے حوالے سے یہی ایک خوبصورت اور معنوی طور پر دلآویز مجموعہ نعت مرتب ہو سکتا ہے۔ دراصل نعت ریاض حسین چودھری کے خمیر میں رچ بس گئی ہے۔ ان کی صبحوں کا گداز اور شاموں کا نیاز فکرِ نعت سے ہی عبارت ہو کر رہ گیا ہے۔ نعت کے حسنِ معنویت کا عنوان رکھ کر وہ ایک دو اشعار میں بھی وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جو انہوں نے ایک نعت میں کہنا ہوتا ہے ورنہ ہم نے تنقیداتِ نعت پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اکثر دیکھا ہے کہ لفظِ نعت پر نعت کی فکری و نظریاتی معنویت پر شاعر کے پورے نعتیہ مجموعے سے ایک دو اشعار بھی بمشکل دستیاب ہوتے ہیں۔ (الا ما شاء اﷲ) ریاض خوش بخت ہیں کہ انہوں نے انداز بدل بدل کر نعت کے مقصد کو پورا اُجاگر کیا ہے کہ ان کا پورا مجموعہ نعت ایک لفظ’’ نعت‘‘ کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ اس سے اندازہ کر لیجئے کہ عصرِ حاضر کے اس حکیمِ فرزانہ نے نعت سے توصیفِ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کتنے گلشن سجائے ہوں گے اور ان گلزاروں کے پھولوں اور پتیوں کو کس کس انداز سے گلرنگ کیا ہو گا۔ ہم تصورات و خیالات کی بات نہیں کر رہے۔ زیرِ نظر مجموعۂ نعت اس حقیقتِ ازلی و ابدی کی گواہی خود دے رہا ہے۔
وقفِ ثنائے احمد مختارؐ ہے قلم
خیر البشرؐ کے عشق میں سرشار ہے قلم
اس نعت کا ہر شعر پیرایۂ اظہار تبدیل کر کے نعت کے نام پر وہ سب کچھ کہہ رہا ہے جو نعت گوئی کے بے شمار مضامین کا مدعا ہے:
محشر کے دن بھی دیکھنا میدانِ حشر میں
توصیفِ مصطفیٰ کا علم دار ہے قلم
ریاض صرف حسین تر الفاظ ڈھونڈتے ہی نہیں ہیں بلکہ ان سے کام لینے کا انداز بھی جانتے ہیں انہیں بجا طور پر احساس ہے کہ تمام زبانیں اور ان زبانوں کے تمام الفاظ اور تمام تراکیب و استعارات کا بہترین مصرف ہی یہی ہے کہ یہ توصیفِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں استعمال ہو سکیں۔ ریاض فقط لفظوں کا ذخیرہ دکھا کر اپنی جادوبیانی کی دھاک بٹھانے کے تمنائی نہیں بلکہ وہ تو الفاظ کو نعتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح سجاتے ہیں کہ بجا طور پر احساس ہونے لگتا ہے جیسے یہ لفظ فقط اسی مقام پر استعمال ہونے کے لیے وجود میں آیا تھا۔
جہاں تک محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا ہے تو ریاض حسین چودھری وفورِ شوق میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں جہاں یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ ان کی یہ محبت لا شریک ہو۔ ایسا ہونا ممکن تو نہیں مگر ان کی آرزوؤں کی تپش، ان کے جذبوں کی دل افروزگی، ان کے اشعار میں لفظ لفظ سے پھوٹتی ہوئی دیدِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرزو، تاریخ ادب کی بہترین تشبیہات و تراکیب کو اسمِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تابانیوں کی نذر کرنا، عشقِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہتے ہوئے آنسوؤں کو زمانے بھر کے عشاق کی ترجمانی کا حسن عطا کرنا، خیالات و احساسات کی بلند پروازی کا مرکز و محور فقط ذاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو قرار دینا، فرسودہ و پامال تراکیب، حسنِ عالمگیری سے مرصع کرنا، اپنے نالہء شوریدہ کو دورِ حاضر کی صدائے درد ناک کی لے عطا کرنا، صورتِ سیّدِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاند تارے روشن کر کے ظلماتِ وقت کو اُجال دینے کا اہتمام کرنا، سیرت و کردار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوشہ چینی کر کے بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم روانہ ہونے کا حوصلہ بخشنا، دلِ تنہا کی ہوک کو خزاں رسیدہ گلشنوں میں پر جلے شوریدہ سر بلبلوں کو جہاں آفریں کوک عطا کرنا، یہ سب محض الفاظ کی سحر کاری نہیں بلکہ عشق و عقیدتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کوچہ دلآویز کی گرم بازاری ہے جہاں جانے کے لیے تو تمناؤں کے ساحل اپنا دامن پھیلا دیتے ہیں مگر واپسی کے لیے اپنے ماحول کی نگاہوں سے اوجھل ہونے کی دعا کرنا پڑتی ہے۔ یہاں ریاض کا قلم نعت رقم کرتے کرتے جلوۂ صد رنگ میں سرمست ہو جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ سے واپسی کا سفر ہے، کون کون سی آرزوؤں کے چراغ روشن کیے بیٹھے ہیں، دل واپسی کو چاہتا بھی ہے مگر غیر محسوس جذبے مختلف آرزوؤں کے حوالے انہیں واپسی سے روکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں:
لکھا ہے اسمِ حضورؐؐ جس پر قلم وہ ایسا خرید کر لوں
میں اُنؐ کے دامن سے آج بھی کچھ حسین موسم کشید کر لوں
حروف طاقِ دل و نظر میں چراغ بن کر جلیں سحر تک
یہ چاہتا ہوں مَیں اپنے جذبوں کی آنچ اتنی شدید کر لوں
چراغ پلکوں پہ رکھ رہا ہوں مری شریک سفر، ہواؤ
اگرچہ دامن تہی ہے لیکن میں کچھ تو سامانِ دید کر لوں
مرے بھی ہونٹوں پہ قافلے خوشبوؤں کے جشنِ طرب منائیں
خیالِ شہرِ نبیؐ سے تھوڑی سی مَیں بھی گفت و شنید کر لوں
میں دل کے سادہ ورق پہ توصیفِ مصطفیؐ کی سجا دوں کلیاں
شریکِ حرف ثنا چمن کو اے میرے ذہنِ جدید کر لوں
ازل سے اشکوں کے آئنوں میں نقوشِ پا کا ہے عکس روشن
میں دیدۂ تر میں تیز عشقِ نبیؐ کی لَو کو مزید کر لوں
ریاض کی زیرِ نظر جدید نعت میں پابند نعتوں کے پہلو بہ پہلو آزاد بحروں میں کہی ہوئی نعتیں بھی ہیں جن سے ان کی نعت کے میدان میں مزید جامعیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کچھ نعتوں کے عنوانات بھی قائم کیے ہیں مثلاً ’’گنبدِ خضرا ہے میرے سامنے لاہور میں‘‘ السلام اے کاشف سرِ نہاں، التجائے امت، اکیسویں صدی کی پہلی دعائیہ نظم، صدی آشوب، منظر نامہ (نعتیہ سانیٹ) التماس، درود پڑھنا، سلام کہنا، غبارِ شب کی گرفتِ ناروا سے رہائی، فقط، حسنِ طلب وغیرہ دراصل ان منظومات، قطعات، سانیٹ اور آزاد نظموں کے ذریعہ ریاض حسین چودھری کا مقصد نعت کو نئے تجربات کی نذر کرنا نہیں بلکہ اس کی بدولت وہ سب کچھ کہہ دینا چاہتے ہیں جو قافیہ ردیف کی پابندیوں کی بدولت ممکن نہیں ہے۔ بہرحال نعتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہار جاں فزا اِدھر سے چلے یا اُدھر سے، بات تو ایک ہی ہے:
مت الجھنا ہم غلامانِ پیمبرؐ سے ریاضؔ
تاجِ شاہی ہے ہماری ٹھوکروں میں آج بھی
بلاشبہ ’’خلدِ سخن‘‘ دورِ حاضر کی بھرپور ترجمانی کے لحاظ سے نعت کی دنیا میں انتہائی قیمتی اثاثہ ہے، ریاض حسین چودھری کی ذات اور نعت گوئی اپنے مخصوص اسلوبِ نعت کی بدولت نہ پہلے محتاجِ تعارف تھی اور نہ اب ہے۔ میری دعا ہے کہ اُن کے خامہء نور سے یوں ہی ستارے طلوع ہوتے رہیں اور ان کی نعتیہ تگ و تاز اِسی شان سے تاریخِ نعت کا اعزاز بنتی رہے۔
پروفیسر محمد اکرم رضا