مرنے کے بعد بھی دے عشقِ نبی کا موسم- خلد سخن (2009)
مرنے کے بعد بھی دے عشقِ نبیؐ کا موسم
میری لحد میں اُترے یہ روشنی کا موسم
میں نذر کیا کروں گا دامن تہی ہے میرا
کب تک مجھے ڈسے گا یہ مفلسی کا موسم
لب پر جہالتوں کے کانٹے اُگے ہوئے ہیں
شاخِ ثنا پہ مہکے اب آگہی کا موسم
شاداب ساعتوں کا مژدہ صبا بھی لائے
یا رب گزر بھی جائے نوحہ گری کا موسم
میں بھی اُترتے دیکھوں صدقے میں مصطفیٰؐ کے
بستی کے ہر مکاں میں آسودگی کا موسم
اُنؐ کے نقوشِ پا کو پرچم بنا کے دیکھو
رخصت چمن سے ہو گا بے رونقی کا موسم
امت شکستہ پَر ہے عظمت کے ہر سفر میں
زنجیرِ پا بنا ہے درماندگی کا موسم
اُس عارضِ حسیں کی لیتا رہے بلائیں
لپٹا ہوا قلم سے صورت گری کا موسم
بچے عدالتوں کی دہلیز پر کھڑے ہیں
نافذ مرے وطن میں ہو منصفی کا موسم
دل کی لگی کا روگی ہوں لے چلو مدینے
آئے گا راس مجھ کو شہرِ نبیؐ کا موسم
جنت کی نعمتوں کا منکر ہے کون کافر
کیا واں بھی مل سکے گا اُنؐ کی گلی کا موسم
تکمیلِ شخصیت کی خیرات مانگتا ہے
دربارِ مصطفیٰؐ میں ہر اِک صدی کا موسم
اس ارضِ جان و دل میں یارب! ہمیش مہکے
بوبکرؓ کا، عمرؓ کا عثماںؓ، علیؓ کا موسم
اکھڑی ہوئی ہیں سانسیں ملت کے رہبروں کی
آقا حضورؐ، بھیجیں چارہ گری کا موسم
اُبھریں ہتھیلیوں پر اب امن کی لکیریں
آدمؑ کی نسل بانٹے ہر دوستی کا موسم
آقاؐ برہنہ سر ہے شاخِ انائے اُمت
اﷲ نہ دے کسی کو کم ہمتی کا موسم
نعتِ نبیؐ کا سورج رکھتا ہوں پاس اپنے
کیسے محیط رہتا تیرہ شبی کا موسم
میری تمام نسلوں کے بھی سر کا تاج ٹھہرے
حُبّ نبیؐ کی چَٹکی ہوئی چاندنی کا موسم
میں ریاضؔ یاسیت کے پانی میں گِھر گیا ہوں
مرے کاسہء ہنر میں کھُلے خوشدلی کا موسم