در پر حضورؐ، رکھّی ہوئی چشمِ تر ہوں مَیں- تحدیث نعمت (2015)
در پر، حضورؐ، رکھّی ہوئی چشمِ تر ہوں مَیں
ادنیٰ سا ایک آپؐ ہی کا نغمہ گر ہوں مَیں
نطق و بیاں کے پھول مجھے ہوں عطا مزید
آقا حضورؐ، آپؐ کا اک بے ہنر ہوں مَیں
آباء کے مَیں نے بیچ دیئے ہیں کفن، حضورؐ
بازارِ مصر، یا کوئی نیلام گھر ہوں مَیں
رہتی ہیں خوشبوئیں مرے آنگن میں مستقل
یہ اس لئے کہ شاعرِ خیرالبشرؐ ہوں مَیں
منزل ہماری ایک ہَے یعنی درِ حضورؐ
بادِ صبا کے ساتھ شریکِ سفر ہوں مَیں
ہر زائرِ حرم کے قدم چومتا رہوں
آقا حضورؐ، ایک کُھلی رہگذر ہوں مَیں
مرنے کے بعد بھی کروں رزقِ ثنا تلاش
کہتا ہَے کون قبر میں بے بال و پر ہوں مَیں
اُنؐ کے طفیل ہاتھ میں ابھریں گے آفتاب
یہ جانتا ہوں ایک شبِ مختصر ہوں مَیں
اشعار درج ہیں مرے پتوں پہ نعت کے
شہرِ سخن کی راہ میں بوڑھا شجر ہوں مَیں
توصیف کے گلاب ہیں دامن میں صد ہزار
خوشبو کا ہمصفیر ہوں، کب بے ثمر ہوں مَیں
اربابِ دل شکستہ کا آقاؐ سلام ہو
عشاقِ بامراد کا اک نامہ بر ہوں مَیں
چھینی گئی ہَے مجھ سے ثقافت کی روشنی
اور اس کے باوجود ابھی بے خبر ہوں مَیں
اوقات تیری کیا ہَے، یہ معلوم ہَے ریاضؔ
اُنؐ کی نظر پڑی ہَے تو لعل و گہر ہوں مَیں