اللہ کی رحمت کی برسات کی رم جھم ہے- تحدیث نعمت (2015)
اللہ کی رحمت کی برسات کی رم جھم ہے
کیا شہرِ پیمبرؐ میں جذبات کی رم جھم ہے
اشکوں کو زمیں پر مَیں گرنے ہی نہیں دیتا
آنگن میں مرے، میری عادات کی رم جھم ہے
دریائے طلب بھر لوں، کشکول کہاں پھینکوں
دہلیزِ پیمبرؐ پر خیرات کی رم جھم ہے
ہر سَمت درودوں کے مہکے ہوئے گجرے ہیں
منظر میں کھجوروں کے باغات کی رم جھم ہے
بھیگا ہوں عطاؤں کی بارانِ مقدّس میں
آنکھوں میں مدینے کے ذرّات کی رم جھم ہے
اوڑھی ہوئی خوشبو کی چادر ہَے بہاروں نے
رنگین گلابوں کی بارات کی رم جھم ہے
کیا خوب مناظر ہیں طیبہ کے گلستاں کے
دن رات کی برکھا ہے، دن رات کی رم جھم ہے
عیدی میں ملا سب کچھ سرکارؐ کے قدموں میں
بدلے ہوئے میرے بھی حالات کی رم جھم ہے
آقائےؐ مدینہ کی رحمت کی گھٹائیں ہیں
الطافِ مسلسل کے لمحات کی رم جھم ہے
جس رات مواجھے میں حاضر تھا ہوا شاعر
اِس عمرِ درخشاں پر اُس رات کی رم جھم ہے
دامانِ طلب پُر ہے، امید کی کرنوں سے
جھولی میں مری آقاؐ حاجات کی رم جھم ہے
آقا جیؐ مَیں رہتا ہوں مکیّ یا مدینے میں
زم زم کے کٹورے ہیں، میقات کی رم جھم ہے
سامانِ سفر کھولو آہستہ کہ ِاس میں بھی
خاشاکِ مدینہ کی سوغات کی رم جھم ہے
مَیں بھی تو ریاضؔ اُنؐ کی اولاد کا نوکر ہوں
ہر وقت نگاہوں میں سادات کی رم جھم ہے