جس کی ممکن ہی نہیں کوئی لگائے قیمت- تحدیث نعمت (2015)
جس کی ممکن ہی نہیں کوئی لگائے قیمت
نعتِ سرکارؐ کی وہ مجھ کو ملی ہَے دولت
اَن گنت آپؐ کی توصیف کے روشن ہیں چراغ
تنگ پڑ جائے گی اب ارض و سما کی وسعت
منتظر چاند ستارے بھی سنیں تازہ کلام
مَیں نے کھولی ہَے سرِ شام بیاضِ مدحت
اپنے اندر کے چراغوں کو ورق پر لکھ لوں
یا خدا! عمر کو تُو اتنی تو دے دے مہلت
دیکھ کر اپنی ہتھیلی پہ شفاعت کے گلاب
میری آنکھوں میں رہی حشر کے دن بھی حیرت
نَسلِ انسانی ہَے مقروض ازل سے اُنؐ کی
ایک اک اُنؐ کے تصدق میں ملی ہَے نعمت
ہر کسی لب پہ مچلتی ہَے مدینے کی طلب
میرے گھر بار پہ ہَے میرے خدا کی رحمت
مَیں مواجھے میں نگاہوں کو اٹھاتا کیسے
ایک شاعر کی، نبی جیؐ، نہیں اتنی جرأت
عیدِ میلاد پہ بچّوں نے جلائے ہیں چراغ
میرے آنگن سے ہوئے شب کے اندھیرے رخصت
سوچتا رہتا ہوں مَیں خود کو بھی شامل کر کے
اٹھ کے جائے گی کہاں آپؐ کے در سے خلقت
اپنے آقاؐ کو لحد میں بھی سلامی دوں گا
آپؐ کے نقشِ قدم سے رہے میری نسبت
سارے ناکردہ گنہ اس کا مقدّر ہیں، حضورؐ
فتنہ و شر کی عدالت میں کھڑی ہَے اُمّت
اس منادی کی سرِ عام ضرورت ہَے، ریاضؔ
اُنؐ کا فرمانِ محبت ہَے مسلسل حُجّت