آج بھی کھولی ہوائوں نے کتابِ انقلاب- تحدیث نعمت (2015)
آج بھی کھولی ہواؤں نے کتابِ انقلاب
آسماں سے آج بھی اترے ہزاروں آفتاب
ہَے مشامِ جاں معطر خوشبوئے توصیف سے
آج بھی میری دعائیں ہو رہی ہیں مستجاب
مَیں نے تمہیدِ ثنا کا ہَے ورَق الٹا ابھی
لفظ میرے بن گئے ہیں خود بخود تازہ گلاب
تُو نے دیکھی ہی نہیں میرے لبوں کی تشنگی
تُو نے دیکھا ہی نہیں میرے قلم کا اضطراب
مَیں رسولِ اوّل و آخرؐ کا ہوں مدحت نگار
کر رہا ہوں نور و نکہت سے مسلسل اکتساب
آسمانی ہر صحیفے کی تجلّی ہیں، حضورؐ
آپؐ کی ذاتِ مقدّس ہَے خدا کا انتخاب
لکھ رکھا تھا چھاگلوں پر مَیں نے اسمِ مصطفیٰؐ
اِس لئے میری بھی کٹیا میں اتر آئے سحاب
علم کی پوشاک دی میرے قلم کو آپؐ نے
آپؐ کے نقشِ قدم ہیں تا ابد میرا نصاب
یانبیؐ مجھ کو نگل جائیں نہ یہ مل کر کہیں
مفلسی کے دشت میں بکھرے ہوئے لاکھوں سراب
روشنی اترے مدینے کے افق سے یانبیؐ
کتنی صدیوں سے غضب کے ہیں اندھیرے ہمرکاب
آئنے بھی کھا رہے ہیں اِن دنوں دھوکہ، حضورؐ
میرے بے چہرہ تمدن پر پڑے اتنے نقاب
یہ یقیں ہَے آپؐ کے قدموں کے صدقے میں حضورؐ
آسماں سے آئے گا سب التجاؤں کا جواب
اس کو تو خوشنودیٔ اللہ نبیؐ مطلوب ہَے
میر و سلطاں لُوٹ لیں اپنی رعایا کا ثواب
آج بھی امت نبیؐ کی سازشوں کا ہَے ہدف
فتنہ و شر کے بدن پر آج بھی اتریں عذاب
اپنے اندر جھانکنے کی بھول بیٹھی ہَے ادا
ہو عطا امت کو، آقاؐ پھر شعورِ احتساب
خلعتِ انوار دی سرکارؐ کو جس نے، ریاضؔ
صرف اُس کے نام ہَے نعتِ نبیؐ کا انتساب