کل بھی تھی اور آج بھی ہَے میری آرزو- تحدیث نعمت (2015)
کل بھی تھی اور آج بھی ہَے میری آرزو
چل کر کروں ہوائے مدینہ سے گفتگو
اللہ کے بعد آپؐ کا ہَے نام محترم
کونین کی ہَے اسمِ محمدؐ سے آبرو
آیا ہَے کون آپؐ کی چوکھٹ کو چوم کر
رہتی ہَے مجھ کو شہرِ پیمبرؐ کی جستجو
لفظوں میں اشک میرے پروتا ہَے رات دن
میرا قلم بھی رہتا ہَے ہر وقت با وضو
بس اب قریب گنبدِ خضرا ہَے، ہمسفر
رقصاں ہیں خوشبوئیں پسِ دیوار چار سو
اٹھتی نہیں نگاہ، بہت شرمسار ہوں
کب سے کھڑا ہوں روضۂ اطہر کے روبرو
طیبہ نگر میں چاند ستارے بکھیرتی
مکّے کے بعد دیکھی ہَے دنیائے رنگ و بو
محشر کے روز آبِ خنک کی کمی نہ تھی
نعتِ نبیؐ کی بہتی رہی لب پہ آبجو
ذکرِ حضورؐ آتا ہَے ذکرِ خدا کے ساتھ
صلِّ علیٰ کا سرمدی نغمہ ہَے کوبکو
ہیں سَر ورَق پہ اسمِ گرامی کی تابشیں
اخبار آج سارے کا سارا ہَے مشکبو
تُو ربِّ کائنات ہَے تُو ربِّ لا شریک
بس جلوہ گر خدائے محمدؐ ہَے تُو ہی تُو
لَوٹا اِسے حضورؐ کے قدمَین کی طرف
پانی بنا ہَے آج کے انسان کا لہو