شہرِ آقاؐ کی مجھے تازہ ہوا دے خوشبو- تحدیث نعمت (2015)
شہرِ آقاؐ کی مجھے تازہ ہوا دے خوشبو
میری سانسوں میں درودوں کو سجا دے خوشبو
آج آئیں گی مدینے کی کھجوریں گھر میں
میرے آنگن میں نئے پھول کھلا دے خوشبو
میری بینائی کو ہَے نقشِ کفِ پا کی تلاش
خاک، طیبہ کے گلی کوچوں کی لا دے خوشبو
آبِ زم زم کے کٹورے لئے ہاتھوں میں کبھی
میرے بچّوں کو بھی طیبہ سے صدا دے خوشبو
شہرِ اقبال کے شاعر کو ملے اذنِ سفر
اُنؐ کے دربار میں پہنچے تو دعا دے خوشبو
شہرِ طیبہ کی طرف چلنے کا وعدہ کر کے
ہتھکڑی مجھ کو سرِ عام لگا دے خوشبو
شہرِ اقبال سے آقاؐ کے درِ عالی تک
جتنے پردے بھی ہیں حائل وہ اٹھا دے خوشبو
کس طرح رویا تھا وہ تھام کے چوکھٹ اُنؐ کی
حال طیبہ کے مسافر کا بتا دے خوشبو
بال و پر جَھڑنے لگے میرے بدن سے آخر
گنبدِ سبز سرِ عام دکھا دے خوشبو
میری تنہائی مجھے ڈستی رہی ہے شب بھر
شہرِ طیبہ کی ہواؤں سے ملا دے خوشبو
آئنہ اشک کا دھندلایا ہوا ہَے کب سے
عکس سرکارؐ کے روضے کا بنا دے خوشبو
حوضِ کوثر پہ ہَے عشاقِ پیمبرؐ کا ہجوم
حوضِ کوثر پہ مری نعت سنا دے خوشبو
مضطرب رہتا ہے آنکھوں کے جھروکے میں کوئی
اس کے آنسو درِ آقاؐ پہ بچھا دے خوشبو
نام لکھ لکھ کے در و بامِ مدینہ پہ مرا
میری قسمت کے ستارے کو جگا دے خوشبو
شامِ توصیف میں لمحات بھی پڑھتے ہیں درود
عشق کے شعلوں کو پھر خوب ہوا دے خوشبو
تیز اڑنے کا ہنر حرفِ دعا سے سیکھے
راہِ طیبہ کی مسافت کو گھٹا دے خوشبو
مجھ کو لے جائے اڑا کر درِ اقدس پہ ریاضؔ
نقش محرومی کے امشب بھی مٹادے خوشبو