ردائے عجز میں لوٹی انا مدینے سے- خلد سخن (2009)
ردائے عجز میں لوٹی انا مدینے سے
برہنہ سر کو عمامہ ملا مدینے سے
چراغِ اشک ہوا کی ہتھیلیوں پر ہیں
پلٹ رہا ہے کوئی قافلہ مدینے سے
ازل سے نسبتِ نقشِ قدم رہی حاصل
قلم کا ربط ابد تک رہا مدینے سے
ورق ورق پہ ہے شاداب ساعتوں کا ہجوم
ملا ہے آج بھی اذنِ ثنا مدینے سے
ہوائے خلدِ مدینہ چھپا کے لے آئے
چراغِ نقشِ کفِ مصطفیٰؐ مدینے سے
خدا سے مانگنے کا بھی کوئی طریقہ ہے
فلک پہ پہنچے تو ہو کر دعا مدینے سے
کہ لوگ چُور ہیں زخموں سے، بانٹ دے ان میں
صبا جو لائی ہے خاکِ شفا مدینے سے
یہ میرا دامنِ صد چاک تنگ ہے ورنہ
کرم تو اُنؐ کا ہوا بارہا مدینے سے
ہوائے کفر کی یلغار سرحدوں پر ہے
حضورؐ، بھیج دیں سیفِ خدا مدینے سے
کسی کے حرفِ ستائش کی کیا ضرورت ہے
سخن کو کیا نہیں ہوتا عطا مدینے سے
نہ عرش و فرش پہ اس کا کوئی ٹھکانہ ہے
گیا خدا سے بشر جو گیا مدینے سے
مجھے نصیب حضوری کے رتجگے ہوں گے
جڑا ہوا ہے مرا سلسلہ مدینے سے
ریاضؔ، تجھ سے صفائی میں پوچھتے ہیں ہم
تُو لوٹ آیا ہے کیونکر بتا مدینے سے