خدا سمیٹ دے پھر فاصلہ مدینے کا- تحدیث نعمت (2015)
خدا سمیٹ دے پھر فاصلہ مدینے کا
بُھلا سکا نہیں مَیں رتجگا مدینے کا
بہار مجھ سے پتہ خوشبوؤں کا پوچھے گی
اُسے دکھاؤں گا مَیں راستہ مدینے کا
قلم، دوات، ورَق سب کے سب مدینے کے
لُغت کے سر پہ عمامہ بندھا مدینے کا
صبا درود کے گجرے اٹھا کے لے آئی
کسی نے چھیڑ دیا تذکرہ مدینے کا
اِسی غبار میں گم ہَے مرے بدن کا غبار
محیطِ جاں ہی رہے دائرہ مدینے کا
عطا سند ہو غلامی کی یا رسول اللہ،
مرے بھی لب پہ ہَے حرفِ دعا مدینے کا
غریب خانے کے ہر طاق میں شبِ ہجراں
چراغِ لطف و کرم پھر جلا مدینے کا
بدن سے روح نکل کر پہنچ گئی در تک
وہ حال مجھ کو سناتا رہا مدینے کا
خدا کرے کہ مَیں کھویا رہوں قیامت تک
مجھے بھی لوگ کہیں نقشِ پا مدینے کا
غبارِ شہرِ مدینہ کا شکریہ واجب
کفن نصیب مجھے بھی ہوا مدینے کا
چلو ریاضؔ بچھا دیں ہم اپنی پلکوں کو
گذر رہا ہَے کوئی قافلہ مدینے کا