ہم پر ہوئی ہے جبرِ مسلسل کی انتہا- تحدیث نعمت (2015)
ہم پر ہوئی ہَے جبرِ مسلسل کی انتہا
آقاؐ، کرم مزید کرم کی ہَے التجا
رودادِ غم بیان کرے کس طرح کوئی
آقاؐ، بہت ہَے تلخ حقائق کا ذائقہ
طیبہ کی خاک کی ہَے طلب آج بھی بہت
دھندلا رہا ہَے بزمِ تخیّل کا آئنہ
در پر کھڑی ہَے سر کو جھکائے ہوئے، حضورؐ
اُمّت کو اَن گِنت ہَے مصائب کا سامنا
جائے پناہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم، حضورؐ
اپنی ہی سر زمیں سے ہوا اپنا انخلا
ساحل پہ ڈھول پیٹنے والے کھڑے رہیں
ہر موج لے کے آئی ہَے گردابِ ابتلا
بچّوں کو آج بھی کوئی دے نہ سکے جواب
ہم کیا کریں گے جرمِ ضعیفی پہ تبصرہ
سرکارؐ دلخراش مناظر ہیں سامنے
ٹوٹی کمند مِلّتِ بیضا کی بارہا
چاروں طرف سے خون کی بارش برس پڑی
سر پر کھڑی ہَے عَصرِ جہالت کی کربلا
ہر قریۂ خلوص کے لیل و نہار میں
پھیلا ہوا ہَے کاغذی چہروں کا سلسلہ
دیوار و در اداس کھڑے بستیوں میں ہیں
طیبہ سے بھیج دیجئے لمحات خوشنما
نا کردہ جرم سر پہ ہمارے سجا دیئے
تاریک شب میں قفل لبوں پر پڑا رہا
کوئی قدم اٹھانے کا رکھتی نہیں شعور
آقا حضورؐ، دیجئے اُمّت کو حوصلہ
آقا حضورؐ، تیرہ شبی کے وجود پر،
کب سے بنا ہوا ہَے مقدر کا زائچہ
کس سَمت جا رہے ہیں ہواؤں کے ساتھ ہم
سالارِ کارواں کبھی اتنا تو سوچتا
مشکیزے چھین لیتا ہَے گندم کے ساتھ ساتھ
کوئی تو بڑھ کے ہاتھ مہاجن کے روکتا
ماتم کناں ہَے شامِ غریباں کی چشمِ تر
آقاؐ چراغ بانٹنے نکلے کبھی ہوا
آنکھوں میں عجز و خوف کا پانی نہیں، حضورؐ
ہم نے لٹا دیا ہَے زرِ منصبِ دعا
ہر ہر قدم پہ یاس کے کانٹے بچھے ہوئے
بعد از خدا، حضورؐ کے در پر کریں صدا
کب سے ریاضؔ شب کی گرفتِ غضب میں ہے
آقاؐ، سوائے آپؐ کے کس سَمت دیکھتا