پھر مرے قَصرِ تخیل کا دریچہ ہَے کُھلا- تحدیث نعمت (2015)
پھر مرے قصرِ تخیّل کا دریچہ ہَے کُھلا
اک چراغِ آرزو ہَے دیدۂ تر میں جلا
سر کے بل چل کر مَیں پہنچا ہوں درِ سرکارؐ تک
گنبدِ خضرا کا منظر ہَے نگاہوں میں بسا
پھر مدینے کی ہواؤں سے ہوا ہوں ہمکلام
پھر حضوری کا مجھے پیغام خوشبو نے دیا
پھر مرے آنگن میں اترے کہکشاؤں کے ہجوم
ہمنشینی کا شرف احبابِ طیبہ سے ملا
ہچکیوں اور سسکیوں اور آنسوؤں کے درمیاں
یانبیؐ لبیک مَیں کہتا ہوا حاضر ہوا
کیف میں ڈوبے ہوئے لمحات پڑھتے ہیں درود
وہ مرے زندہ پیمبرؐ کی گلی کا رتجگا
مجھ سے پوچھا تھا کسی نے امنِ عالم کا نصاب
آخری خطبہ قلم سے خود بخود لکھّا گیا
ہر صدی کو علم کی پوشاک دیں آقا حضورؐ
ہر صدی در پر کھڑی ہَے بن کے حرفِ التجا
تُو مدینے کے جزیرے میں خزانہ کر تلاش
رہنمائی کے لئے کافی ہیں اُنؐ کے نقشِ پا
ایک اک ساعت خدا کے حکم کی پابند ہے
ایک اک لمحہ حیاتِ مصطفیٰؐ کا معجزہ
کب چراغِ مدحتِ آقاؐ نہیں روشن ہوئے
کب رُکا ہَے آپؐ کے لطف و کرم کا سلسلہ
ہر زمانہ آپؐ کی خیرات کا محتاج ہے
ہر افق پر آپؐ کے اوصاف کا ہَے آئنہ
مَیں لپٹ کر خاکِ انور سے بہت رویا، حضورؐ
ایک آنسو میری پلکوں پر مگر جلتا رہا
اِس کے لہجے میں ہَے زنجیرِ غلامی کی چھنک
مجھ سے دیوانے پہ ہَے اہلِ نظر کا تبصرہ
یا رسول اللہ غلاموں کو عطا پھر کیجئے
بُردباری، اعلیٰ ظرفی، استقامت، حوصلہ
حاضری کے دن گذر جاتے ہیں لمحوں میں ریاضؔ
پھر درِ سرکارؐ سے رخصت کا مَحشر ہَے بپا